باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
حریف اگر طاقتور ہو تو مضبوط حلیف تلاش کرو
ہم عربی رسول حضرت محمد مصطفے علیہ الصلوہ و السلام کے امتی ہیں۔اہل عرب بھی اپنی طاقت و قوت میں اضافہ کے لئے کسی کو حلیف بناتے تھے اور خود ہمارے رسول علیہ الصلوہ و السلام نے حریف یعنی قبیلہ قریش کو مضبوط دیکھ کر یہودی قبائل اور بعض مشرک قبائل کو اپنا حلیف بنایا تھا۔
بھارت میں مضبوط مسلم سیاسی لیڈر شپ کا قیام نہیں ہو سکا،کیوں کہ مسلم سیاسی لیڈروں نے صرف قوم مسلم کو نظر میں رکھا۔وہ سیاسی محاذ پر بھی اپنا حلیف تلاش کرنے کی طرف متوجہ نہ ہو سکے۔جب کہ ہمارا حریف بھارت کی قلیل التعداد اقلیت ہونے کے باوجود ہمارے سینے پر سوار رہا اور مسلسل ہم پر ظلم و ستم ڈھاتا رہا۔ہر شعبے میں ہمیں پیچھے دھکیلتا رہا،یہاں تک کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بھارتی مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ خستہ ہو چکی ہے۔
محض اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ وہ سب کچھ کھو کر اور مادی اعتبار سے انتہائی پستی میں جا کر بھی مطمئن اور خوش نظر اتے ہیں۔
جب تک قوم کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ اور خدا اعتمادی کا تصور و عقیدہ موجود ہے،ہم اس قوم میں صور پھونک سکتے ہیں۔
اگر یہ قوم ہمت ہار بیٹھی اور مایوسی میں مبتلا ہو گئی تو جس طرح ابرہہ کے ہاتھی مکہ کی طرف کسی صورت میں بھی جانے کو راضی نہ ہوئے،وہی حال مایوسی کے شکار لوگوں کا ہوتا ہے۔وہ بہت اسانی کے ساتھ اپنی جان بھی گنوا دیتے ہیں۔اپنی جان کی حفاظت کے لئے بھی کوئی کوشش نہیں کرتے،بلکہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔
جب کوئی فوج ہار جاتی ہے تو فاتح لشکر کا ایک سپاہی شکست خوردہ فوج کے دس بیس سپاہیوں کو بیل بکرے کی طرح ہانک کر قتل گاہ کی طرف لے جاتا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے ان تمام سپاہیوں کو قتل کر دیتا ہے،حالاں کہ ان سپاہیوں میں بعض ایسے بہادر صفت اور سورما بھی ہوتے ہیں جو تنہا دشمن کے لشکر کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں اور میدان جنگ میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔ان کا نام سن کر ہی مخالف لشکریوں کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور میدان جنگ میں انہیں دیکھ کر مخالفین دہشت زدہ ہو جاتے ہیں،لیکن جب قنوط و یاسیت طاری ہو جاتی ہے تو ایک عظیم شہ سوار اور دہشت طاری کرنے والا بہادر جنگ جو بھی سر جھکائے فاتح لشکر کے سپاہی کے اشارے پر قتل گاہ کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں بھی مایوسی بھرنے کی مکمل کوشش کی گئی ہے۔ان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ بھارت میں تمہارا مقدر مظلومیت اور محکومیت ہے،لیکن ابھی امید کی شعاعیں موجود ہیں۔اسلامی نظریات و عقائد کے سبب امید کی کرنیں ان کے دلوں سے جھانکتی نظر اتی ہیں۔
ہمارا حریف کون ہے؟
بھارت میں ارین قوم تمام بھارتی اقوام کے لئے حریف ہے۔یہ قوم تمام بھارتیوں کو اپنا محکوم اور اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ارین قوم تین قبیلہ؛برہمن راجپوت اور بنیا پر مشتمل ہے۔ان کی مجموعی تعداد پندرہ فی صد بتائی جاتی ہے۔برہمن قوم ساڑھے تین فی صد ہے اور یہ لوگ بھارت کی ازادی سے اج تک بھارت کی مرکزی حکومت اور اکثر ریاستی حکومتوں پر قابض رہی ہے۔
یہ لوگ تمام غیر ارین اقوام پر ظلم و ستم بھی ڈھاتے ہیں۔ان کے خلاف سازشیں بھی کرتے ہیں۔ان کو اپنے سے کم تر،بلکہ بدتر بھی سمجھتے ہیں،پھر ان کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بھارت کی حکومت ان کی جھولی میں چلی جاتی ہے۔
اصل موضوع سے بھٹکا دینا
چالاک اور عیار قسم کے لوگ اپنے حریف کو اصل مدعا سے بھٹکا دیتے ہیں،تاکہ وہ حریف کبھی بھی اس موضوع پر نہ ا سکے،جس سے وہ اپنے مخالف کو مات دے سکتا ہو۔
جمہوری ممالک میں ساری قوت اسمبلی اور پارلیامنٹ کے پاس ہوتی ہے۔اگر حکمراں جماعت سرکشی پر اتر ائے تو جمہوریت کے دیگر ستون بھی اہل حکومت کے سامنے بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔
الیکشن میں فتح اسی کی ہو گی،جس کے پاس ووٹروں کی تعداد زیادہ ہو۔
مسلمانوں کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ چوں کہ تم اقلیت میں ہو،اس لئے اسمبلی یا پارلیامنٹ میں تمہاری اکثریت کبھی نہیں ہو سکتی اور نہ کسی ریاست اور مرکز میں کبھی تمہاری حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔
مسلم دانشوروں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ برہمن قوم بھارت کی حکومت پر قابض ہے اور اس کی تعداد ساڑھے تین فی صد سے زیادہ نہیں۔یہ خود انتہائی قلیل التعداد اقلیت ہو کر بھی حکومت میں ہیں اور مسلمانوں کی مجموعی تعداد پندرہ فی صد ہے،پھر بھی ان کو برہمنوں کا ظلم و ستم سہنا ہے اور برہمنوں کا غلام رہنا ہے۔
اج تو قیامت انے والی نہیں۔نہ جانے کب ائے گی۔ہمیں اپنے لئے بھی اور اپنی ائندہ نسلوں کے لئے بھی کچھ عملی اقدام کرنا چاہئے۔
برہمنوں نے مول نواسی اقوام کو ہندو اور سناتن دھرمی بنالیا،حالاں کہ وہ ہندو نہیں۔برہمن قوم مسلسل ساڑھے تین ہزار سال ۱۵۰۰:قبل مسیح سے اج تک مول نواسی قوموں پر ظلم ڈھا رہی ہے،پھر بھی وہ ان کے ساتھ کیسے ہیں؟
بابری مسجد کی جگہ عہد ماضی میں کسی مندر کا کوئی ثبوت نہیں،جس کا اعتراف سپریم کورٹ نے بھی کیا،پھر اسی کے حق میں فیصلہ بھی ا گیا۔یہ سب قریبا نا ممکن امور کیسے ممکن ہو گئے؟
ذرا سوچیں اور پھر مضبوط حکمت عملی بنائیں۔
او! اپنا حلیف تلاش کریں
ہمیں اپنا حلیف تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ہمارا حلیف دامن پھیلائے ہماری امد کا منتظر ہے۔اپ کو صرف سیاسی محاذ پر وہ طریق کار اختیار کرنا ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنایا تھا۔وہ افضل المرسلین اور کائنات عالم میں سب سے افضل ترین ہستی سیاسی محاذ پر غیر مسلموں کو حلیف بنائے اور ہم بصیرت کے اندھے لوگ صرف مسلم قوم کی قلت تعداد کو دیکھ کر مایوس ہو جائیں اور اپنی قوت و طاقت اور افرادی قوت کو بڑھانے کے لئے کسی غیر مسلم قبیلہ کو حلیف بنانا پسند نہ کریں،بلکہ قوم کی تباہی و بربادی،قتل و غارت گری،مسلم خواتین کی عصمت دری،مسلمانوں کی جائیداد و املاک کی تباہی،اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصلوہ و السلام کی تضحیک و توہین،مسلمانوں کی تذلیل و بے عزتی دیکھ کر بھی خاموش پڑے رہیں اور یہ بھی دل میں خواہش چھپائے رہیں کہ لوگ ہمیں دانشور و مفکر سمجھیں تو شاید کچھ لوگ اپ کو ایسا سمجھیں گے۔
میں تو ایسوں کو بصیرت سے بہت دور اور مادہ تفکیر سے بے نصیب سمجھتا ہوں۔
کانشی رام نے بہوجن سماج پارٹی بنائی۔بہوجن سماج کا مفہوم ہے: کثیر الافراد سماج اور طبقہ۔
یہ بھارت میں رہنے والوں کی ایک اہم تقسیم ہے۔اس تقسیم کی بنیاد بھارت کی باشندگی پر ہے۔
جو بھارت کے اصل باشندے ہیں،جن کو مول نواسی کہا جاتا ہے،اور برہمنی نظام کے کاسٹ سسٹم میں جن کو شودر اور اچھوت سمجھا جاتا ہے۔وہ سب بہوجن سماج میں شامل ہیں۔
برہمنی دھرم کے ذات پات کے نظام میں اچھوتوں کو حیوانوں سے بدتر اور ناپاک سمجھا جاتا ہے،حالاں کہ حیوانوں کو پاک سمجھا جاتا ہے۔بعض حیوانوں کے دودھ کے ساتھ اس کے پیشاب کو بھی پاک سمجھا جاتا ہے اور اسے پینے کو بھی فخریہ کار نامہ سمجھا جاتا ہے،لیکن اچھوت ایسا ناپاک ہے کہ وہ کسی کو چھو بھی دے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔
کچھ دنوں قبل صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کا اڑیسہ کے ایک مندر کی زیارت کے لئے جانا ہوا۔پنڈتوں اور پجاریوں نے اسے مندر میں داخل نہیں ہونے دیا،یعنی صدر جمہوریہ ہو کر بھی کوئی دلت پاک نہیں ہو سکتا۔
بہوجن سماج میں ارین قوم کے علاوہ تمام لوگ شامل ہیں۔مسلم،بودھ،جین،سکھ،لنگایت وغیرہ سب کو مول نواسی اقوام میں شامل تسلیم کیا گیا ہے۔
مول نواسی اقوام کے مرکزی لیڈران کا نظریہ ہے کہ یہ سب لوگ ہمارے خاندانی لوگ ہیں۔ہمارا ڈی این اے اور مسلم،بودھ،جین،سکھ وغیرہ کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔
یہ لوگ مختلف زمانوں میں برہمنوں کی تنگ نظری،ان کے ظلم و ستم،غیر انسانی سلوک،ذات پات کے نظام میں غیر مساویانہ درجہ بندی سے متنفر ہو کر دیگر مذاہب کو اختیار کر لئے۔
یہ لیڈران علی الاعلان کہتے ہیں کہ مول نواسی قومیں سناتن دھرمی اور ہندو نہیں۔ان کا نظریہ ہے کہ سناتن دھرم صرف برہمنوں کے لئے ہے۔
اگر وہ دھرم شودروں اور اچھوتوں کے لئے بھی ہوتا تو ان کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت ملتی۔ان شودروں اور اچھوتوں کو وید اور مذہبی گرنتھ پڑھنے کی اجازت ہوتی،حالاں کہ اگر کوئی شودر وید سن لے تو حکم یہ ہے کہ اس کے کان میں پگھلا ہوا گرم سیسہ ڈالا جائے،یعنی اس کو ہلاک کر دیا جائے،پھر وہ مذہب شودروں اور اچھوتوں کے لئے کیسے ہو سکتا ہے؟
الحاصل قوم مسلم کے درمیان اسی تقسیم کو شہرت دی جائے،جس کی بنیاد بھارت کی اصل باشندگی پر ہے۔جس میں مسلمانوں کو ایک باعزت قوم اور اپنا خونی رشتہ دار تسلیم کیا گیا۔اسی خونی رشتے کی تشہیر کی جائے،تاکہ برہمنوں کے مظالم سے قوم مسلم محفوظ رہ سکے۔ارین قوم خود مسلمانوں پر ظلم نہیں کرتی،بلکہ شودروں اور اچھوتوں کو ورغلا کر مسلمانوں کے خلاف منظم کر دیتی ہے۔جب انہیں معلوم ہو گا کہ مسلمان لوگ بھی ہمارے گھر کے لوگ ہیں تو ضرور ظلم و ستم سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیں گے۔
اب مول نواسی اقوام میں کچھ بیداری ائی ہے تو بہت سے لوگ ہندو مسلم فساد میں حصہ نہیں لیتے۔
ارین قوم کے کچھ لوگ میدان میں نظر اتے ہیں اور اوبی سی کے چند قبائل،مثلا گوجر،جاٹ وغیرہ فسادات میں نظر اتے ہیں۔
ان شاء اللہ تعالی رفتہ رفتہ یہ لوگ بھی نرم پڑ جائیں گے۔
مول نواسی اقوام یعنی ایس سی،ایس ٹی اور اوبی سی سے سیاسی محاذ پر رشتے مضبوط کئے جائیں اور ان کو اپنا سیاسی حلیف تسلیم کیا جائے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:
03:اگست 2020
0 تبصرے