باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ
لفظ خطا اور سوالات
ڈاکٹرجلالی صاحب کے لفظ خطا کے استعمال پر اس قدر ہنگامہ ارائی سے قبل اس بارے میں حکم شرعی پر غور و فکر کیا جائے۔
در حقیقت شرعی طور پر توبہ کا مطالبہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ لفظ خطا کا استعمال اس مقام پر شرعی طور پرغلط ہو۔
مسئلہ کی تفہیم کے لئے چند سوالات درج ذیل ہیں۔
1_اللہ تعالی کے علاوہ کسی مخلوق کو ہر قسم کی خطا سے پاک و منزہ جاننا کفر ہے یا ضلالت و گمرہی؟
یا کچھ بھی نہیں؟
2__غیر معصومین سے خطا کا صدور ہوتا ہے تو لفظ خطا کا استعمال ان کے حق میں ممنوع کیوں کر ہو گا؟
3_کیا معصوم ہر قسم کی خطا،یعنی خطا بمعنی بھول چوک،سہو و نسیان اور خطا بمعنی خطائے اجتہادی سے بھی پاک ہوتے ہیں؟
یا خطا بمعنی ذنب و گناہ سے پاک ہوتے ہیں،جس کو عربی زبان میں "خطیئہ"کہا جاتا ہے؟
کیا خطائے اجتہادی کا استعمال حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کے لئے وارد نہیں ہوا؟
4_باغ فدک کا مسئلہ کہ اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی،یہ مسئلہ فقہیات میں سے ہے۔
خاتون جنت حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے باغ فدک کا مطالبہ اجتہاد کے سبب فرمایا یا نص قرانی کے اعتبارسے۔یہ امر حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سیرت کا ایک حصہ ہے یا فقہیات و اعتقادیات کے باب کا کوئی مسئلہ؟
5_اگر کسی کی سیرت سے متعلق کسی امر میں کوئی مرجوح قول کو اختیار کر لے تو کیا اس کا وہی حکم ہو گا جو باب فقہ و عقائد کے مرجوح قول کو اختیار کرنے کا حکم ہے؟
6_بالفرض اگر تمام علما و فقہا اس بات پر متفق ہوں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات دس شوال کو ہوئی تھی۔
ایک مورخ کہتا ہے کہ ان کی وفات پچیس شوال کو ہوئی تھی اور اپنی تحقیق پر اس کے پاس کچھ دلائل بھی ہوں،گرچہ وہ دلائل کمزور ہی ہوں تو اس مورخ پر از روئے شرع کیا حکم عائد ہو گا؟
7_اگر یہ فرض کیا جائے کہ جس وقت ڈاکٹر جلالی صاحب نے مطالبہ باغ فدک کو خطائے اجتہادی کہا تھا،اس وقت ان کے علم میں صرف یہی تھا کہ یہ مطالبہ اجتہاد کے سبب تھا اور اس مسئلہ میں حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد صحیح تھا تو اس اعتبار سے اس کا معارض اجتہاد غیر صحیح ہو گا۔اسی اعتبارسے انہوں نے حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کو خطائے اجتہادی کہا تو ایسی صورت میں از روئے شرع کیا حکم وارد ہوتا ہے؟
الحاصل اس طرح کے بہت سے سوالات وارد کئے جا سکتے ہیں۔
جب بعض علما نے مطالبہ باغ فدک کو اجتہاد کا نتیجہ قرار دیا اور پھر اس مسئلہ میں تمام صحابہ کرام کا اجماع حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے موقف پر ہے اور یہ معلوم ہے کہ کسی خطا پر امت کا اجماع نہیں ہوتا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے موقف کا صحیح ہونا اس پر اجماع صحابہ سے ظاہر ہو گیا۔
اب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مطالبہ اگر اجتہاد کے سبب تھا تو یہ اجتہاد فاطمی اجتہاد صدیقی کے بالمقابل ہے،اور اجتہاد صدیقی پر اجماع صحابہ سے اس اجتہاد کا صحیح ہونا ثابت ہو گیا تو اس کے بالمقابل اجتہاد کی حیثیت متعین ہو گئی۔
اپ اس کی تعبیر غیر صواب اجتہاد یا مفضول اجتہاد یا کسی ایسے لفظ سے کر سکتے ہیں جس سے بات سمجھ میں ا سکے،اور بے ادبی کا شبہہ بھی نہ ہو۔
عام طور پر اس کی تعبیر کے لئے خطائے اجتہادی کا لفظ مستعمل ہے،اور یہ استعمال معیوب نہیں،بلکہ مروج ہے۔تادم تحریر اس لفظ کا کوئی متبادل لفظ مستعمل نہیں ہے۔
اگر علامہ جلالی اپنے بیان اول میں مطلق لفظ خطا کی جگہ خطائے اجتہادی کہتے تو عرفی طور پر جو ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے،اس کی امید نہیں تھی۔
چوں کہ یہ لفظ ایک رافضیہ کو جواب دیتے ہوئے اور اس کا رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے،اس لئے اس کو بحث و مناظرہ پر محمول کیا جائے گا۔قانونی طور پر اعتقاد پر محمول نہیں کیا جائے گا۔
حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے متعلق چوں کہ علامہ موصوف کے اعتقادات صحیح ہیں اور پھر مطلق لفظ خطا کی وضاحت انہوں نے خطائے اجتہادی سے کردی ہے تو اب عرفی طور پر بھی الزام ختم ہو جانا چاہئے۔
اس امر میں سوالات کی بجائے شرعی حکم بیان کیا جائے کہ کسی معظم دینی غیر معصوم کے لئے مطلق لفظ خطا کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
ایسا محتمل لفظ کے جس کے بعض معانی اہل فضل کے مناسب اور بعض غیر مناسب ہوں،لیکن جب اہل فضل کے لئے اس لفظ محتمل کا استعمال ہو تو ذہن اہل فضل کے شایان شان مفہوم کی طرف متبادر ہوتا ہو،یا استعمال کرنے والے کے اعتقادات صحیحہ اس کے ایسے مفہوم پر قرینہ بن جائیں جو مفہوم اہل فضل کے موافق ہو تو ایسی صورت میں اس محتمل لفظ کا کون سا مفہوم مراد ہو گا؟
چوں کہ لفظ خطا محتمل ہے تو لا محالہ اس کے مفہوم کے تعین کے لئے متکلم کی مراد دریافت کی جائے گی۔
کسی کے کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں،ایک احتمال اسلام کا ہو تو مفتی اسلامی مفہوم کو اختیار کرے گا۔
جب متکلم کا بیان موجود ہو،اور لفظ محتمل اس مفہوم کا احتمال رکھتا ہو تو مفتی اسی مفہوم کے اعتبار سے حکم جاری کرے گا۔
مومن کے کلام کو حتی الامکان صحیح مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ محتمل کلام کا حکم ہے۔کسی معنی میں مفسر و متعین کلام کا یہ حکم نہیں۔مفسر لفظ میں مفہوم متعین ہوتا ہے۔کسی دوسرے معنی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اس موضوع پر تین قسطیں رقم کر کے ہم نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا ہے۔ان شاء اللہ تعالی مزید قسطیں لکھنے کا ارادہ ہے۔
فریقین میں سے کسی کی طرف داری مقصود نہیں۔محض حکم شرعی کی وضاحت مقصود ہے۔
واللہ الہادی الی الصراط المستقیم
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
07:اگست2020
0 تبصرے