لفظ خطا اور لفظ عدم صواب

 مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما


لفظ خطا اور لفظ عدم صواب


میرے مضمون"اجتہاد فاطمی؛باب اعتقادیات سے ہے یا باب فقہیات سے؟"

کے بعض الفاظ و عبارات سے متعلق وضاحت طلب کی گئی ہے۔سائل کے سوالات اور میری جانب سے توضیح و تشریح مندرجہ ذیل ہے۔

طارق انور مصباحی


*فاضل مضمون نگار نے لکھا کہ سیدہ کائنات کا مطالبہ فدک غیر صواب تھا، ان سے ہمارے چند سوالات...*


1--آپ کو خطاء کی بجائے غیر صواب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ مطلب آپ کا بھی خطاء ہی ہے؟


جواب؛

ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جمال و کمال(قسط اول)میں ہم نے وضاحت کر دی ہے کہ ایسے مقام پر ایسے الفاظ و عبارات کا استعمال ہو کہ نفس مسئلہ بھی سمجھ میں ا جائے اور کوئی انتشار بھی نہ ہو۔

یہاں عدم صواب سے یقینا میری مراد خطائے اجتہادی ہے،لیکن چوں کہ میں مسئلہ کی تفہیم و وضاحت کی کوشش میں ہوں تو چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ حل ہو جائے۔

ایسے پر خطر مقام پر کوئی ایسا لفظ استعمال کر دینا کہ لوگوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹ کر کسی اور جانب ہو جائے،تو یہ خود اپنے ہاتھوں اپنے مقصد کو تباہ کرنا ہے


2--تاریخ میں ایسے کسی مستند بزرگ کا حوالہ دیجیے جنہوں نے طلب فدک کو غیر صواب / خطاء لکھا ہو؟


جواب؛

ہم نے مطالبہ باغ فدک کو دو صورتوں میں سے کسی ایک کا نتیجہ قرار دیا ہے کہ یہ مطالبہ یا تو اجتہاد کے سبب ہو گا یا عمل بالقران کے سبب۔

اس کے بعد ہم نے ان دونوں صورتوں پر بحث کی ہے۔

ہم نے اس بحث میں یہ دعوی نہیں کیا کہ اسلاف کرام نے ایسا لکھا ہے تو پھر مجھ سے یہ مطالبہ بھی نہیں ہو سکتا۔


سائل اور قارئین یہ یاد رکھیں کہ اسلامی اصول و قوانین کے اعتبارسے وہ بحث ہے۔اسلاف کرام کے اقوال و فرمودات کے اعتبارسے یہ بحث نہیں ہے۔

پھر اس مقام پر مجھ سے اسلاف کرام کے اقوال طلب نہیں کئے جا سکتے،بلکہ اسلامی اصول و قوانین کی وضاحت طلب کی جا سکتی ہے،جن کی روشنی میں ہم نے بحث لکھی ہے۔


3--معدودے چند علماء کرام کی عبارات سے ازخود استنباط کر کے سیدہ کائنات جیسی مقدس ترین ہستی کے فقط مطالبے کو غیر صواب /خطاء قرار دینے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟ 


جواب؛

میں نے معدودے چند علما کی جانب سے اجتہاد کا قول ہونے کو اصل مبحث نہیں بنایا ہے،بلکہ دو صورت ہم نے پیش کی کہ یہ مطالبہ بوجہ اجتہاد تھا یا نص قرانی کے اعتبارسے تھا۔

پھر ہماری بحث کا مدار ہماری تجویز کردہ دو صورتوں پر ہے۔

مجھے یہاں ان دو صورتوں کے علاوہ کوئی صورت ظاہر نہ ہو سکی۔

جو صورتیں ظاہر ہوئیں،ان پر بحث مرقوم ہوئی۔


بندے محکوم ہیں،وہ نہ کسی کو روک سکتے ہیں اور نہ اجازت دے سکتے ہیں۔

شریعت اسلامیہ کسی امر سے منع کرتی ہے اور کسی امر کی اجازت دیتی ہے۔علمائے کرام شریعت اسلامیہ کے احکام کو بیان کرتے ہیں۔شریعت اسلامیہ حاکم ہے اور بندے محکوم ہیں۔


مذکورہ مضمون میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ "مومن بہ"کے علاوہ یعنی مومنین کے لئے لفظ خطا بمعنی بھول چوک،سہو و نسیان کا اطلاق جائز ہو گا یا ناجائز؟

عدم جواز کی صورت اب تک ظاہر نہ ہو سکی۔اگر عدم جواز کی کوئی دلیل کسی کی نظر میں ہے تو بیان کرے،تاکہ اس پر غور کیا جائے۔


4--قرآن حکیم کے واضح شرعی حکم کی بنیاد پر اپنے والد کی وراثت کا فقط مطالبہ کرنے کو دنیا کا کون سے قانون غیر صواب / خطاء کہتا ہے؟


جواب؛

میری تحریر میں غور نہ کرنے کے سبب یہ سوال ہوا۔ہم نے لکھا ہے کہ اگر اجتہاد کے سبب مطالبہ ہوا،تب یہ اجتہاد عدم صواب ہو گا،اور یہ خطائے اجتہادی عیب نہیں،بلکہ موجب اجر و ثواب اور مظہر فضل و کمال ہے۔


قران مجید کے حکم واضح پر عمل کو غیر صواب نہیں کہا گیا۔میری عبارت دوبارہ پڑھ لی جائے۔

میں نے لکھا ہے۔

"اگر یہ مطالبہ بوجہ اجتہاد نہ تھا تو نہ یہاں اجتہاد ہو گا،نہ خطائے اجتہادی"


در اصل ایت میراث جس کے سبب حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے مطالبہ فرمایا تھا،وہاں حکم میں تعمیم نہیں تھی،بلکہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کا کی تخصیص تھی۔اس ایت میں تعمیم مراد لینے کو بعض علما نے اجتہاد قرار دیا۔ان شاء اللہ تعالی اس کی تفصیل رقم کی جائے گی۔



5--اگر کہا جائے کہ یہ مطالبہ بموجب حدیث *نحن معاشر الانبیاء الحديث* غیر صواب / خطاء ہے تو جناب یہ حدیث تو خود اسی مطالبے کی برکت سے دنیا کے سامنے آئی، اب جس مطالبے کی برکت سے آپ کو حدیث معلوم ہوئی آپ خود اسی مطالبے کو خلاف اسلاف غیر صواب / خطاء کہنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟

 

جواب؛

حضرت ادم علیہ الصلوہ و السلام کی اجتہادی خطا کی برکت کے سبب  روئے زمین پر انسان اباد ہوئے۔اسی سبب سے حضرت ادم علیہ الصلوہ و السلام کو زمین پر جانے کا حکم ہوا۔

سائل کا وجود بھی اسی اجتہاد کی ایک برکت ہے،پھر تمام اہل حق اس کو اجتہادی خطا بھی مانتے ہیں۔


6--اگر ہر وہ چیز جس کے متعلق بندے پر اس کے مطالبے کے بعد واضح ہو کہ وہ اسے نہیں مل سکتی.. خطاء کا اطلاق کیا جا سکتا ہے.. تو پھر کیا سیدنا موسی علیہ السلام کے *رب ارنی انظر الیک* کے مطالبے پر بھی خطاء کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟


جواب؛

سوال ہفتم کے جواب میں اس سوال کا بھی جواب ہے.


7-- قومِ لوط پر عذاب قضائے مُبرَمِ حقیقی تھا، خلیل اﷲ سیدنا ابراہیم علیہ الصّلاۃ والسلام اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا

يٰۤاِبْرٰهِيْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا اِنَّہ قَدْ جَاءَ اَمْرُ رَبِّکَ وَ اِنَّهُمْ اٰتِيْهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُوْدٍ۰

تو کیا ابراهيم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے رد عذاب کا یہ مطالبہ کرنا خطاء تھا؟


جواب؛

اسی مضمون میں وضاحت ہے کہ محتمل لفظ کا کوئی معنی "مومن بہ"پر منطبق نہ ہو سکے تو ایسے محتمل لفظ کا استعمال

استعمال "مومن بہ"کے لئے نہیں ہوگا۔

مومن بہ سے وہ مراد ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔حضرات انبیائے کرام  و ملائکہ عظام علیہم الصلوہ و السلام پر  ایمان لانا  ضروری ہے۔یہ نفوس قدسیہ "مومن بہ"میں شامل ہیں۔

لفظ خطا بعض ایسے معانی کا احتمال رکھتا ہے،جس کا اطلاق حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام پر نہیں ہو سکتا تو مذکورہ بالا صورتوں میں لفظ خطا کا استعمال نہیں ہو گا۔


جہاں اجتہاد ہو،وہاں صحت اجتہاد اور اجتہادی خطا میں سے کوئی ایک ضرور ہو گی۔

حدیث نبوی سے عدم معرفت کے  سبب مطالبہ کو خطائے اجتہادی نہیں کہا گیا،بلکہ ایت میراث میں تعمیم مراد لینے کو اجتہادی خطا بتایا گیا ہے۔

 اجتہاد کی وہ تمام صورتیں جو  اللہ تعالی کے حکم اصلی سے متخلف ہو جائیں،وہ اجتہادی خطا ہے،لیکن شرعی دلیل میں غور و فکر اور اپنی محنت و کوشش کے سبب مجتہد کو ایک اجر ملے گا۔

بالفرض اگر باغ فدک کا مطالبہ اجتہاد کے سبب تھا،پھر صحابہ کرام بشمول حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا اس پر متفق ہو گئے کہ میراث نبوی تقسیم نہیں ہو تی ہے،اور امت مسلمہ اپنے اجماع میں خطا سے محفوظ ہیں تو جس پر اجماع ہوا،وہ اللہ تعالی کا حکم اصلی تسلیم کیا جائے گا اور اس کے ما سوا صورت کو اجتہادی خطا تسلیم کیا جائے گا۔

اسی تشریح کے مطابق باغ فدک کے مطالبہ کو سمجھا جائے۔


ارباب فضل و کمال کے لئے جس قدر مودب و مہذب لفظ کی اجازت شریعت میں ہے،اس  قدر مہذب و باادب الفاظ استعمال کئے جائیں۔

اہل فضل کے حق میں جن الفاظ کا استعمال ناجائز ہو،ان الفاظ کے استعمال کو جائز بتانا جرم ہے۔

اسی طرح جن الفاظ  کا استعمال جائز ہو،اس کے استعمال کو ناجائز بتانا بھی جرم ہے۔

مذہب اہل سنت و جماعت افراط و تفریط سے پاک ہے۔

ڈاکٹر جلالی کا جرم بھی ثابت نہیں ہو پا رہا ہے،پھر بھی اس قدر ہنگامہ ارائی ہے اور دیابنہ پر کفر و ارتداد کا فتوی ہے۔ان لوگوں کا جرم ثابت ہے،لیکن ان کے حق میں نرمی دکھائی جاتی ہے۔خاص کر مذبذبین کا ٹولہ ڈاکٹر کے خلاف میدان میں اتر پڑا ہے۔اللہم اہدنا الصراط المستقیم


طارق انور مصباحی


09:اگست 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے