مجلس وبسپا کا اتحاد پسپا

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

مجلس وبسپا کا اتحاد پسپا

چند ہفتے قبل بہار اسمبلی الیکشن:2020 کے لئے مجلس اور بسپا نے اتحاد کیا تھا۔الیکشن سے قبل ہی یہ اتحاد پھیکا پڑ گیا,کیوں کہ مایاوتی نے یوپی میں راجیہ سبھا کے انتخاب میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کا من بنا لیا ہے۔اس کی ووٹنگ 9:نومبر2020کو ہو گی۔

مجلس نے یوپی راجیہ سبھا الیکشن:2020 میں بسپا-بی جے پی اتحاد کو دیکھ کر بہار الیکشن میں بسپا کے ساتھ اتحاد سے اپنا قدم پیچھے ہٹانے کی فکر میں ہے۔

دراصل کانشی رام کے زمانے میں بسپا بہوجن سماجی پارٹی تھی,لیکن اب وہ برادریانہ پارٹی ہے۔اپنے سیاسی مفادات اور حکومت وقوت کے لئے وہ فرقہ پرست پارٹی سے اپنا رشتہ قائم کر سکتی ہے۔ہر برادریانہ پارٹی کا یہی حال ہے۔

نتیش کمار,رام ولاس پاسوان وغیرہ کی پارٹیاں بھی برادریانہ پارٹی ہیں۔کانگریس وبی جے پی بھی برادریانہ پارٹی ہے۔یہ دونوں برہمنون کی پارٹی ہیں۔
بی جے پی نے اپنے چہرے پر ہندتو کا نقاب ڈال رکھا ہے اور کانگریس نے سیکولرزم کا ماسک پہن رکھا ہے۔

مہاراشٹر میں کانگریس-شیو سینا اتحاد,بہار میں جے ڈی یو-بی جے پی اتحاد,پاسوان کا مرکزکی ہر حکمراں پارٹی سے اتحاد یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ یہ تمام برادریانہ پارٹیاں ہیں,بہوجن سماجی پارٹی نہیں۔

بہوجن سماج میں قوم مسلم ایک بڑی جماعت شمار کی جاتی ہے۔کوئی بہوجن سماجی پارٹی قوم مسلم کے جذبات واحساسات کو روند کر فرقہ پرستوں سے اتحاد نہیں کر سکتی۔ 

آئیڈیالوجی کے اعتبار سے ابھی صرف چندر شیکھر آزاد کی آزاد سماج پارٹی بہوجن سماجی پارٹی ہے۔گرچہ ابھی یہ ایک نو زائیدہ پودا کی طرح ہے,لیکن پودا ہی قوی ہیکل اور تناور درخت بنتا ہے۔کوئی درخت زمین سے نہیں اگتا۔

مجلس اور آزاد سماج پارٹی کا اتحاد مشکل امر ہے۔مجلس کو ایک مسلم سیاسی پارٹی کے طور پر متعارف کرا دیا گیا ہے اور بھارتی میڈیا کبھی اسے سیکولر پارٹی کے نام پر متعارف ہونے نہیں دے گا۔

مجلس بھی بہوجن سماجی سیاست کی طرف مائل ہے,لیکن مسلم پارٹی کی حیثیت سے اس کی شہرت ہے اور یہی شہرت قوم مسلم تک اس کے دائرہ کو محدود کرنے کا کام کرتی ہے۔اسی شہرت کےسبب دیگر مظلوم طبقات اس سے کثیر تعداد میں منسلک نہیں ہو سکے۔

سیمانچل اور جن علاقوں میں مجلس کی گرفت مضبوط ہے,وہاں مجلس کے امید واروں کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔

میں بھارت میں بہوجن سماجی سیاست کا قائل ہوں۔مسلم سیاست کا قائل نہیں۔اس کی تفصیلات ہمارے سوشل میڈیائی مضامین کے مجموعہ "دیوان لوح وقلم"میں مرقوم ہیں۔

سیاست میں کبھی اتفاقی حادثے بھی ہوتے ہیں کہ ایک سیٹ کی کمی کے سبب کوئی پارٹی حکومت سازی سے محروم ہو جاتی ہے اور کبھی بر سر اقتدار پارٹی کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

مجھے اتفاقی حادثوں کے انتظار و تلاش کی ضرورت نہیں,بلکہ بھارت میں قوم مسلم کی جان ومال اور عزت وآبرو کے مستقل تحفظ کی کوشش کرنی ہے۔یہ تحفظ برادریانہ پارٹیوں کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتا۔بہوجن سماجی سیاست ہی اس کا واحد حل ہے۔

متعدد سماجی تحریکیں اس کی کوشش کر رہی ہیں اور میری تحریریں محض اس آئیڈیالوجی کی تائید وتقویت کے لئے ہیں۔ 

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:یکم نومبر2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے