آؤ! اپنی اصلاح کریں (قسط چہارم) از قلم طارق انور مصباحي

 باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

آؤ! اپنی اصلاح کریں 

(قسط چہارم)

مدارس اسلامیہ کے فارغین کی کثرت کے سبب ارباب مساجد واصحاب مدارس کو امامت وتدریس کے لیے کسی کی تلاش وجستجو کی ضرور ت باقی نہ رہی۔ ایک ڈھونڈو،ہزار ملتے ہیں۔قوم نے سمجھ لیا ہے کہ بے نیازی اور توکل علی اللہ کی تعلیم دہندہ جماعت ہمارے نیازمند اورہمارے سہارے پر ہیں۔فارغین بھی مدارس ومساجد چھوڑ کر کہاں جائیں۔ان کے پاس کسب معاش کا کوئی ہنر نہیں۔اگر کوئی تنظیم و تحریک ان کو ہنرمند بنانے کی کوشش کرتی تو ایک بڑا کام ہوجاتا۔

بہانہ بازی اور حیلہ سازی

اس قدر مساجد ومدارس نہیں کہ تمام فارغین کی گنجائش ہوسکے۔ بعض فارغین کئی کئی ماہ کسی مناسب جگہ کے انتظار میں بے روزگار اپنی زندگی گزارتے ہیں۔کثرت تعداد کا نتیجہ یہ ہواکہ صاحبان مدارس ومتولیان مساجد انہیں قلیل مشاہرہ دیتے ہیں اور ان کو اسی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔قوم کوسوچنا چاہئے کہ مساجد کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنا ثواب ہے تو دین خداوندی کی خدمت بجا لانے والوں کی کفالت بھی کارثواب ہے۔

بسااوقات اہل مساجد تعمیر مسجد کا بہانہ کرکے امام ومؤذن کے لیے قلیل بدل خدمت متعین کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیامسجد کی تعمیر کے سبب اہل محلہ نے ایک وقت کھانا ترک کردیا ہے؟جب مسجد باشندگان محلہ کی دینی ضرورتوں کی تکمیل کے واسطے تعمیر ہوتی ہے تو اہل محلہ کومشقت برداشت کرنی چاہئے۔امام ومؤذن آج ہیں،کل نہیں رہیں گے۔

تعمیر مسجد کے سبب امام ومؤذن کے شکم پر پتھر باندھنا یقینا ظلم اور انسانیت سوز حرکت ہے۔متولیان مساجد وارکان کمیٹی کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہئے،نہ کہ امام ومؤذن پر تعمیر مسجدکا بوجھ ڈالیں۔اگر تما م اہل محلہ مشقت برداشت کریں تو مشقت تقسیم ہوجائے گی اور ہرایک کے حصے میں مختصر سی مشقت آئے گی۔

قلت مشاہرہ کے سبب حالات کنٹرول سے باہر

بعض مساجد میں امام وخطیب کو دو،تین ہزار مشاہرہ دیا جاتا ہے۔یقینا اس مہنگائی کے عالم میں اس قلیل رقم سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ کسی کو بخار لگ جائے تو علاج پر تین چار ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔قلت مشاہرہ کے سبب اگر ان خدام دین متین کا قدم پھسلتا ہے تو اس کے ذمہ دار اہل مساجد ہوں گے۔ایسی مجبوری کی صورت میں بعض ائمہ مساجد قرآن خوانی کا سہارا لیتے ہیں۔دینی امورمیں اجرت کا جواز تعلیم دین اور امامت جیسے ضروری امورسے متعلق ہے۔ 

دیگر امور میں فقہا ئے کرام جواز کی ایک صورت اجارہ کی شکل میں بیان فرماتے ہیں۔اجارہ ایک عقد ہے،جس کا انعقاد طرفین کی رضا مندی سے ہوگا۔محض کسی فریق نے اجارہ کا تصور کر لیا اور اپنے دل میں اجارہ کی نیت کرلی تو اس طرح عقد اجارہ منعقد نہیں ہوگا۔قرآن خوانی پارٹی کالیڈر صاحب مکان کوکہے کہ پانچ ائمہ کرام آپ کے یہاں ایک گھنٹہ کا وقت دیں گے،اس کے بدلے آپ کو اتنی رقم دینی ہوگی،اور تلاوت قرآن ایک عبادت ہے۔اس کی کوئی اجرت نہیں۔اگر عقد اجارہ نہ کریں تو ”المعہود کالمشروط“کا حکم نافذ ہوگا اور جواز کی صورت مفقود ہوگی۔

جو علمائے کرام رمضان میں تراویح کے واسطے حفاظ کرام کوبھیجتے ہیں،ان کوبھی چاہئے کہ متولیان مساجد سے صریح لفظوں میں بات کریں کہ تراویح ایک عبادت ہے۔اس پر کوئی اجرت نہیں،لیکن حافظ صاحب آپ کے یہاں ایک ماہ وقت دیں گے،اس کے عوض آپ کواتنی رقم دینی ہوگی۔اگر شرم وحیا کرتے رہیں تو پھر ”المعہود کالمشروط“کے حکم سے نجات کی راہ نظر نہیں آتی۔تراویح اور قرآن خوانی کے اجارہ سے متعلق فقہائے کرام تفصیلی احکام بیان فرمائیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اعلانیہ کہہ دیا جائے کہ قرآن خوانی یا تراویح کے عوض کچھ نہیں چاہئے،پھر لوگ بطور نذر کچھ دے دیں تو یہ اجرت نہیں،بلکہ تحفہ اور ہدیہ ہے۔فقہائے کرام نعت خوانی اور تقریروخطابت کی اجرت کے احکام بھی بیان فرمائیں۔مساجد ومدارس میں مشاہرہ کے اضافہ کی کوشش کی جائے اور فارغین کوہنرمند بناکر رزق حلال کا ذریعہ مہیا کیا جائے۔تعویذات پر اجرت کی اجازت ہے۔اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور جہاں جواز کی راہ نہیں،اسے لوگ  معیوب نہیں سمجھتے۔تعویذاور جھاڑپھونک کامقصد عبادت نہیں،بلکہ دفع مصیبت کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے۔

غلط خوراک سے پرہیز کریں 

مدارس اسلامیہ میں مختلف قسم کے صدقات واجبہ آتے ہیں،ناظمین مدارس کوچاہئے کہ حیلہ شرعی کے بغیر اساتذۂ کرام کے لیے ان صدقات واجبہ کا استعمال نہ کریں۔ جب رہبران شریعت اور قائدین امت کے رزق میں آمیزش ہوگی تو ان کا قلب نفیس وطیب باقی نہ رہ سکے گا، حالاں کہ پاکیزہ قلوب سے امت کوروشنی حاصل ہوتی ہے۔ 

ارباب ثروت کے نام ایک اہم پیغام 

  اگر چنداہل ثروت اپنے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے کسی عالم وحافظ کومناسب بدل خدمت پرمقرر کر لیں تووہ متعینہ وقت پر ان کے بچوں کودینی تعلیم دے سکتے ہیں،ان کی عمدہ دینی تربیت کرسکتے ہیں اور بہت سے علما وحفاظ کی کفالت بھی اس طرح ہوسکتی ہے۔اس طرح دینی تعلیم کافروغ بھی ہوگا اور ہرمسلمان بچہ اسلامی فکرونظر کا حامل ہوگا۔وہ اسلامی آداب وثقافت سے واقف وآشنا اورعمدہ تربیت کے سبب اس پر عمل پیرا ہوگا۔ عہد ماضی میں سلاطین وحکام اور امراورؤسا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اتالیق مقررکرتے تھے،اور ان کی مکمل کفالت کرتے تھے۔

ہم مسلمانوں کا نظریہ ہی غلط ہوچکا ہے۔ہم لوگ انگریزی تعلیم کے لیے اور اس کے ٹیوشن کے لیے خطیر رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن جب دینی تعلیم کے ٹیوشن کے واسطے کسی استاد کومقرر کرنا ہوتو دوچارسو سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوتی، حالاں کہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت پر جوکچھ بھی آپ خرچ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ آپ کے بچے بھی دینی احکام سے واقف وآشنا ہوسکیں گے،اور ہماری موت کے بعد ہمارے لیے دعائے خیر کریں گے۔

ارباب ثروت عام طورپر اپنے بچوں کودینی تعلیم کے واسطے مسجد یا مکتب میں نہیں بھیجتے،کیوں کہ وہ ان کے شایان شان نہیں۔اسی طرح اگر ایک کروڑ پتی اپنے بچوں کے دینی معلم کوماہانہ پانچ سوروپے دے تو یہ بھی ان کے شایان شان نہیں۔آپ معلم کی حیثیت کونہ دیکھیں،اپنی عظیم حیثیت کودیکھ کر معلم کی خدمت کریں۔

آپ ہر جگہ اپنی حیثیت دیکھتے ہیں۔ جب اپنے بچوں کی شادی کرنی ہوتو اپنی شان کے مطابق شادی ہال بک کرتے ہیں۔اپنے بچوں کے کپڑے،اسکول وغیرہ امور کا انتخاب اپنی شان وعظمت کے موافق کر تے ہیں تواپنے بچوں کے دینی معلمین اوراپنے ائمہ ومؤذنین کے ساتھ بھی اپنی شان کے مطابق سلوک کریں۔شادی میں کروڑوں روپے خرچ کریں گے اور نکاح خوانی کا نذرانہ پانچ سو سے آگے نہیں بڑھ سکے گا:الا ماشاء اللہ تعالیٰ۔

اسکلز سنٹر کا قیام

اگر ملک کے مختلف علاقوں میں چند باحوصلہ ارباب ثروت فارغین مدارس کے لیے کسی معاشی تربیت گاہ کا نظم کرتے،جہاں ان کو کچھ دستکاری،معاشی ہنر وغیرہ سکھایا جاتا اور فارغین کسب معاش کے لیے اسے اپناتے تو یہ بہت بہتر ہوتا۔یہ فارغین جس معاشی شعبہ میں جاتے،کم ازکم اس شعبہ کے منسلکین کی صالح رہنمائی کر سکتے تھے۔

وہ علمائے کرام جن کے اثرات قوم پر ہیں،ان کوچاہئے کہ متولیان مساجد اور ناظمین مدارس کوائمہ ومدرسین کے مناسب بدل خدمت کی ترغیب دیں۔اسی طرح فارغین مدارس کوہنرمند بنانے کی رائے پر بھی غور فرمائیں۔

ارباب مدارس محنت ومشقت اور جاں فشانی کرکے قوم کے بچوں کودینی تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔سارا بوجھ مدارس پر ڈالنا مناسب نہیں۔ دیگر تنظیمیں بھی کچھ پیش قدمی کریں:}لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرًا {

عہد حاضر میں تعلیم ایک بڑی تجارت بن چکی ہے۔ پرائیویٹ اسکول وکالج تجارتی مقصدسے قائم ہوتے ہیں۔ بچوں سے ماہانہ فیس اور ایڈمیشن فیس کے طورپر کثیر رقم وصول کی جاتی ہے۔ذمہ داروں کو اچھے منافع حاصل ہوتے ہیں۔

ارباب مدارس سے بھی بصدادب عرض ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی تعلیم وتربیت،خوردونوش اور رہائش گاہ وغیرہ کا عمدہ نظم فرمائیں اور صاحب استطاعت بچوں سے فیس لیں۔غریب والدین بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کرتے ہیں تو مہنگی فیس ادا کرتے ہیں۔اگر اہل مدارس بھی فیس کا سلسلہ شروع فرمادیں تو پبلک کلیکشن اورعوامی چندہ کی ضرورت نہ پڑے۔ایک مشکل یہ درپیش ہوگی کہ جو لوگ کمیشن کے ذریعہ اپنے معاشی فنڈ میں کچھ قوت پیدا کرلیتے ہیں،ان کا ذریعہ بند ہوجائے گا۔اس کے تدارک کی کوئی راہ نکالنی ہوگی۔واضح رہے کہ محصلین کی اجرت ایک متعین حدتک جائز ہے۔شریعت اسلامیہ نے جن امور کی اجازت دی ہے،ان پرانگشت نمائی کرکے ہم اپنی آخرت تباہ نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں ان امور پربحث کررہے ہیں جن کو دین اسلام نے غلط قراردیا ہے۔

حاصل بحث یہی ہے کہ فارغین مدارس کا بے ہنر ہونا بسا اوقات خود ان کی باطنی نفاست اورروحانی بالیدگی کے لیے مضر ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ جو ترکیب میں نے رقم کی ہے،اسی پر عمل ہو۔ میرا یہ مطالبہ ہے کہ فارغین مدارس کے ہاتھ میں کوئی بہترذریعہ معاش دیاجائے،تا کہ وہ رزق مخدوش اور خوراک مشکوک سے بچ سکیں:واللہ الہادی وہو الموفق 

 طارق انور مصباحی 

جاری کردہ: 11:ستمبر2020

٭٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے