آؤ اپنی اصلاح کریں قسط سوم : از قلم طارق انور مصباحی

 مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما


او! اپنی اصلاح کریں


قسط سوم


پوزیشن یافتگان اور غیر اسلامی کردار 


ہر مسلمان محکوم ہے اور اسلام حاکم ہے۔اسلام ہر بندے سے سربلند ہے۔اسلام سے سر بلند کوئی نہیں۔

حدیث شریف میں ارشاد ہوا:


 الاسلام یعلوا ولا یعلی(بخاری)


علمائے اسلام،مشائخ عظام و ائمہ ذوی الاحترام میں سے ہر کوئی حضور اقدس سرور دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے اور سنت نبویہ کے متبع و پیروکار ہیں۔


ان میں سے کوئی بھی ہرگز یہ پسند نہیں فرمائیں گے کہ ان کو فرعون و نمرود اور ہامان و شداد کا پیروکار بتایا جائے۔


اس جماعت خوباں میں چند ایسے ناخوب بھی ہیں کہ ان کے اخلاق و کردار کو دیکھ کر شک گزرتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا باب الاخلاق پڑھا ہے یا نہیں؟


یہ لوگ اصحاب ثروت کے سامنے انتہائی متواضع٬شریف الطبع و کریم النفس بن جاتے ہیں،لیکن اپنے ہی طبقہ یعنی اصاغر علما اور چھوٹے پیروں کے سامنے فرعونی غرور اور نمرودی کردار کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔

وہ دیگر علما و حفاظ کو بہت ہی کم تر اور حقیر سمجھتے ہیں۔اگر ان پوزیشن یافتگان کی خدمت بے برکت میں کسی عالم و حافظ نے اپنی کوئی ضرورت پیش کر دی تو ان کے حق میں ان کی بد اخلاقی قابل دید ہوتی ہے۔


برہمن قوم شودروں اور دلتوں کو حیوانوں سے بدتر اور اچھوت سمجھتی ہے۔ان پوزیشن یافتگان کے دماغ خسیس و قلب پر حشیش میں بھی برہمنیت کے کیڑے ڈنک مارتے رہتے ہیں۔


واضح رہے کہ کوئی اسی وقت تک قابل تعظیم ہے جب تک وہ اعلانیہ فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔صرف چوری کرنا گناہ نہیں اور بھی بہت سے امور گناہ ہیں،جن کو اعلانیہ کرنے والا فاسق معلن ہے۔


اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و کردار کے باب میں تمام مامورات سنن و مستحبات میں سے نہیں،بلکہ بعض واجبات میں سے بھی ہیں

اور باب اخلاق کے منہیات و ممنوعات میں سے سب کچھ خلاف اولی اور مکروہ تنزیہی نہیں،بلکہ بعض مکروہ تحریمی اور حرام بھی ہیں۔


غرور و گھمنڈ،کبرونخوت،کسی کی تذلیل و تحقیر،کسی پر ظلم و ستم خلاف اولی یا مکروہ تنزیہی نہیں،بلکہ ناجائز و حرام ہیں۔


بعض پوزیشن یافتگان دوسرے علما کو مارپیٹ بھی کرواتے ہیں۔اس قسم کے متعدد واقعات کا علم مجھے ہے۔


فرعون و نمرود کے ان جانشینوں میں چند پیر،کچھ مولوی،عظیم مساجد کے بعض ائمہ اور مدارس اسلامیہ کے چند ناظمین شامل ہیں۔


بعض ناظمین مدارس تو ایسے قبیح الفکر ہیں کہ وہ اپنے مدرسے کے مدرسین کو تو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہی ہیں،ساتھ ہی ساتھ اپنے علاقہ بھر کے علما و حفاظ کو بھی مثل غلام سمجھتے ہیں۔

   

ان لوگوں کا یہ غلط رویہ اپنے سے کمزور علما کے ساتھ ہوتا ہے۔


یہی پوزیشن یافتگان ارباب ثروت و اصحاب دولت کے سامنے دبے لچے رہتے ہیں۔کسی ناجائز و حرام کام پر بھی وہ ان کی فہمائش کی جرات نہیں کر پاتے۔جب کہ دیگر علما کو یہ لوگ ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے ہیں۔


اپنے اصاغرین اور کمزور مومنین کے سامنے ان کا جلال اکبری چنگیز و ہلاکو کو شرمسار کر دیتا ہے۔شاید دنیا کے کسی عجائب خانے یا کسی چڑیا گھر میں کسی حیوان کی حرکتیں بھی اس قدر تعجب خیز اور حیرت انگیز نہیں ہوں گی۔


خیر! ڈانٹ ڈپٹ تو غلط ہونے کے باوجود کسی قدر قابل برداشت ہے،لیکن جو لوگ مار پیٹ کراتے ہیں،کیا اس کو بھی نظر انداز کر دیا جائے،پھر ایسے شریروں کا قدم قتل و خون ریزی کی طرف بڑھنے میں کیا رکاوٹ ہو گی۔


بعض علمائے کرام کو لگتا ہو گا کہ میں کوئی مفروضہ بیان کر رہا ہوں،یا کوئی پہیلی بتا رہا ہوں یا خواب کی کہانی یا اپنے ذہن میں خود ساختہ کوئی افسانہ سنا رہا ہوں۔


 نہیں بھائی! یہ سب زیب داستاں نہیں۔بہت کچھ چل رہا ہے۔بہت سے خون خوار درندے بھی جبہ و دستار میں ہوتے ہیں اور بہت سے بدمذہب سنی کی شکل و صورت میں۔اسی طرح بہت سے غیر مسلم عالمانہ شکل و صورت میں۔


کسی بھی غلط کام کو اعلانیہ طور پر غلط کہا جاتا ہے،تب غلط کار اس سے پیچھے ہٹتا ہے یا پھر لوگ اس سے بچنے کی ترکیب نکالتے ہیں۔


 اہل حکومت کے خلاف احتجاج،مظاہرے،ہڑتال،بائیکاٹ وغیرہ کر کے اپنی ناراضگی ظاہر کی جاتی ہے۔


اصحاب جبہ و دستار کے خلاف کچھ نہیں ہوتا تو کم ازکم نظریاتی،تحریری و تقریری طور پر امور شنیعہ کی شناعت بیان کی جائے۔

 دوسری صورت یہ ہے کہ ان کے ہر غیر شرعی امر کی تاویل و توضیح کر کے اسے موافق شرع ثابت کر دیا جائے،بلکہ یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے،صرف اس پر مہر قبولیت لگانا باقی ہے اور شرع شریف کی عدم موافقت کے سبب مہر قبولیت ہی کا امکان خارج باب ہے،خواہ کسی حضرت یا کسی حضور کے معتقدین و مریدین اور تلامذہ و متعلقین جس قدر کثیر تاویل کر لیں۔دراصل کسی غیر معصوم کو معصوم سمجھنا ہی غلط ہے۔


طارق انور مصباحی


جاری کردہ:

04:ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے