اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے؟

  مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما


اختلاف و انتشار کا سبب کیا ہے؟


قسط دوم


معصوم عن الخطا اور محفوظ عن الخطا گناہ و معصیت سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں۔

یہاں خطا سے گناہ کی دونوں قسمیں مراد ہیں،یعنی کبیرہ وصغیرہ دونوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں۔صغیرہ میں قصد و بلا قصد اور منفرہ وغیر منفرہ وغیرہ کی تفصیل اور کچھ اختلاف ہے۔


اصحاب فضل کے لئے لفظ خطا کا استعمال حرام قطعی بالکل نہیں ہے۔حرام قطعی ضروریات دین میں سے ہوتا ہے۔اس کے لئے  قطعی بالمعنی الاخص دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔


شراب نوشی حرام قطعی اور ضروریات دین سے ہے۔اگر کوئی شراب نوشی کو حرام مانتا ہو،اور شراب نوشی بھی کرتا ہو،لیکن چھپ کر پیتا ہو تو مومن اور فاسق ہے،لیکن فاسق معلن نہیں۔


اگر شراب نوشی کو حرام مانتا ہے اور شراب نوشی بھی کرتا ہے اور اعلانیہ شراب نوشی کرتا ہے تو وہ فاسق معلن ہے،لیکن گمراہ یا کافر نہیں۔


اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال کے عدم جواز پر نہ کوئی قطعی بالمعن الاخص دلیل موجود ہے،نہ کوئی قطعی بالمعنی الاعم دلیل،بلکہ کوئی صحیح حدیث بھی موجود نہیں۔فقہائے کرام کی بھی صراحت موجود نہیں۔


اس کے باوجود اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال کو بعض محققین نے ضلالت و گمرہی اور اہل سنت سے خروج کا سبب ثابت فرما دیا۔

خطا سے بڑھ کر لفظ "سیئہ"ہے۔اہل فضل کے لئے اس کا استعمال بھی بتا دیا جائے،کیوں کہ اہل علم دہراتے رہتے ہیں؛

حسنات الابرار سیئات المقربین

یہ مشائخ صوفیا علیہم الرحمہ سے منقول ہے۔اس میں حسنہ کو سیئہ کہا گیا،یعنی معصیت و گناہ اور اس کی نسبت مقربین کی طرف کی گئی ہے۔مقربین میں لغوی طور پر تو ہر بندہ مقرب شامل ہے۔عرف میں تمام اولیائے کرام کو یہ لفظ شامل ہوتا ہے۔ 


اگر کسی لفظ سے بے ادبی سمجھ میں اتی ہو تو بے ادبی کے مختلف درجات ہیں۔بعض بے ادبی کفر،بعض ضلالت و گمرہی،بعض حرام،اور بعض حرام سے بھی نیچے ہے۔


اہل فضل کے لئے لفظ خطا کے استعمال کو بے ادبی ثابت کرنے کے لئے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق ایک روایت کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،لیکن کوئی فقہی یا کلامی جزئیہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔


حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے متعلق ایک حدیٹ مختلف الفاظ میں مروی ہے،لیکن وہ حدیث محدثین کے یہاں صحیح نہیں۔

وہ حدیث مندرجہ ذیل ہے۔


1:عن معاذ بن جبل:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما اراد ان یسرح معاذا الی الیمن۔استشار ناسا من اصحابہ۔فیہم ابو بکر و عمر و عثمان و علی و طلحہ و الزبیر و اسید بن حضیر فاستشارہم۔

فقال ابو بکر: لو لا انک استشرتنا،ما تکلمنا۔

فقال؛ انی فیما لم یوح الی کاحدکم۔

قال: فتکلم القوم،فتکلم کل انسان برایہ۔

فقال: ما تری یا معاذ؟

قال: اری ما قال ابو بکر۔

فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؛

ان اللہ عز وجل  یکرہ فوق سمائہ ان یخطا ابو بکر رضی اللہ عنہ۔(الطبرانی فی الکبیر۔مسند الشامیین۔المسند للشاشی)

 یہ روایت ابو العطوف راوی کی وجہ سے درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔بعض نے اس کو موضوع کہا ہے۔


2_ان اللہ یکرہ فی السماء ان یخطئ ابو بکر الصدیق فی الارض۔

اس روایت کو محدث ابن جوزی حنبلی نے موضوع قرار دیا ہے۔


اگر بالفرض مذکورہ بالا روایت کو قابل استدلال مان لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات بھی اس سے منسلک ہوں گے۔


سوال اول؛

 

جس روایت میں  مصدر خطا کا معروف صیغہ استعمال ہوا۔اس کا مفہوم یہ ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے خطا نہیں ہو گی۔اس سے یہ کیسے ثابت ہو گا کہ دوسرے غیر معصومین سے بھی خطا نہیں ہو گی؟ 

یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصیت ہو سکتی ہے،بلکہ یہی ظاہر ہے،کیوں کہ اس مجلس میں دیگر محفوظین عن الخطا موجود ہیں۔اس کے باوجود عدم خطا کی نسبت کسی ایک کی جانب کرنا تخصیص کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسری بات یہ بھی واضح ہے کہ یہاں اس خطا کا ذکر ہے،جس سے محفوظین عن الخطا محفوظ نہیں ہیں۔

جس خطا سے محفوظین بفضل الہی محفوظ کر دئیے گئے ہیں،اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر تمام محفوظین شریک ہوں گے،پھر اس امر میں کسی ایک محفوظ کی تخصیص کا کوئی معنی نہیں۔


اگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی تخصیص نہ مانی جائے تو عدم تخصیص کی وجہ بیان کرنی ہو گی۔


اگر تخصیص مانی جائے تو اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا  ہے کہ جس خطا سے محفوظین محفوظ نہیں ہیں،وہ دیگر کے حق میں قابل صدور ہو،اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں ناقابل صدورہو۔


جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں تخصیص مان لی جائے تو یہاں دو صورت ہو گی۔

اول یہ کہ خاص مذکورہ مشاورتی امر میں خطا سے محفوظ ہونا مراد ہو،اور یہی ظاہر ہے۔

دوسری صورت یہ کہ ہر امر میں ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہونا مراد ہو تو یہ محل نظر ہے۔


خاص مذکورہ مشاورتی امر میں عدم خطا مراد ہو تو اس مشاورتی امر میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو رفق بالناس یعنی لوگوں کے ساتھ نرمی اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا،جیسا کہ مسند الشاشی میں اس کی صراحت ہے۔


یہاں عدم خطا کا مفہوم یہ ہو گا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا مشورہ صحیح ہے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ جو حاکم بن کر یمن جا رہے ہیں،وہ لوگوں کے ساتھ نرم سلوک کریں اور یہی اللہ تعالی کو بھی پسند ہے۔


کیا یہاں دوسری صورت مراد ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہر قسم کی خطا سے محفوظ فرما دیا ہے؟


در اصل یہ مسئلہ کہ کیا اللہ تعالی نے کسی انسان محفوظ غیر معصوم کو ہر قسم کی خطا یعنی سہو و نسیان،زلت و لغزش،بھول چوک اور اجتہادی خطا وغیرہ سب سے محفوظ فرما دیا ہے۔یہ محل تحقیق ہے۔


حضرات ملائکہ کرام علیہم السلام سہو و نسیان اور غفلت و سستی سے بھی پاک رکھے گئے ہیں۔بنی ادم کے معصومین سہو و نسیان سے معصوم نہیں۔


کسی انسان محفوظ غیر معصوم کو ہر قسم کی خطا سے محفوظ رکھنا رحمت الہی سے بعید نہیں اور قدرت الہی سے خارج نہیں،لیکن کسی ایسی روایت کے سبب یہ عقیدہ بنا لینا بالکل صحیح نہیں جو محدثین کے یہاں صحیح بھی نہ ہو،بلکہ اہل علم جس کے موضوع ہونے کی صراحت کرتے ہوں۔


دوسری بات یہ کہ حضرات اولو العزم انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کی حیات طیبہ اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیات مقدسہ میں سہو و نسیان اور اس نوع کے امور  کا ذکر ملتا ہے،جو نہ گناہ صغیرہ ہیں،نہ گناہ کبیرہ، بلکہ محض سہو و نسیان ہیں۔


ایسی صورت میں کسی انسان محفوظ غیر معصوم کا ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہونا قابل تحقیق ہے۔


کسی انسان غیر معصوم کو اس صفت کے عطا ہونے کا جواز اور عطا کا وقوع محل نظر ہے۔


بعض امور کا شمار بشری تقاضوں میں ہوتا ہے۔

مشہور مقولہ ہے؛

الانسان مرکب من الخطاء والنسیان


حضور اقدس سید المعصومین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اپنے ذاتی عمل میں سہو و نسیان ثابت ہے۔

در حقیقت عصمت انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام وحفاظت محفوظین کے مفہوم میں سہو و نسیان وغیرہ امور سے عصمت و حفاظت کا مفہوم شامل نہیں۔


نہ ہی نادر طور پر سہو و نسیان وغیرہ امور کا صدور معیوب ہے،نہ ہی ان امور کا شمار گناہ میں ہے۔


حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں فدیہ لے کر قیدیوں کو ازاد کرنے کا مشورہ دیا تھا۔اس کو  قبول فرمایا گیا اور نافذ کیا گیا۔


حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا مشورہ قیدیوں کو قتل کرنے کا تھا۔اس کو قبول نہیں فرمایا گیا۔


رب تعالی نے قران مجید میں فدیہ لے کر ازادی دینے کی تائید نہیں فرمائی۔اس کا ذکر قران مجید میں ہے۔


اب یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہیں۔


حضرات اہل بیت عظام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو روافض نے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام سے بھی افضل بتا دیا ہے۔

مذہب اہل سنت و جماعت افراط و تفریط سے پاک ہے۔


نہ کوئی ایسی بات کی جائے جو اصحاب عظمت شان کے خلاف ہو۔


نہ ہی کوئی ایسی تاویل و تشریح کی جائے جو شریعت کے خلاف ہو۔


ہمارے ان مضامین میں اہل فضل سے متعلق بعض امور کا ذکر محض مسئلہ شرعیہ کی تحقیق کی حاجت کے سبب ہو جاتا ہے،ورنہ ذکر کی حاجت نہیں۔


یہود ونصاری نے حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو معبود بنا لیا تھا تو حکم ربانی قران مجید میں ایا کہ زبان اقدس سے اعلان فرما دیں۔

انما انا بشر مثلکم (القران)

اس اعلان سے مقصود یہی تھا کہ نبی کو نبی اور خدا کو خدا سمجھا جائے اور جس کا جو مقام اللہ و رسول (عز وجل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)نے بیان فرمایا،بندگان الہی اسی پر قائم رییں۔


سوال دوم؛


مجہول صیغہ کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو خاطی قرار دینا رب تعالی کو ناپسند ہے۔


خواہ خاطی قرار دینا لفظ خطا کے ذریعہ ہو یا دیگر الفاظ کے ذریعہ خاطی قرار دیا جائے۔


اس روایت سے صریح طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لفظ خطا کی نسبت نہ کی جائے،بلکہ ان کو خاطی قرار دینے پر اللہ تعالی کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔


وہاں لفظ خطا کی نسبت اور استعمال کی بحث نہیں تھی،بلکہ مشورہ میں خاطی قرار دینے کی بات تھی۔


کسی کو کسی امر میں خاطی قرار دینے کے لئے  لفظ خاطی کے علاوہ متعدد الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں،مثلا زید کا مشورہ غیر صحیح ہے،غیر صواب ہے،فاسد ہے،باطل ہے،ہالک ہے،نقصان دہ ہے،عقل کے خلاف ہے۔بدعقلی پر مبنی ہے،احمقانہ فیصلہ ہے۔وغیرہ


کسی کے مشورہ کو عملی طور پر خطا قرار دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو قبول نہ کیا جائے،بلکہ اس کے متضاد و متخالف مشورہ کو قبول کیا جائے۔


اس روایت سے خاطی قرار دینے کا عدم جواز بھی صریح طور پر ثابت نہیں,کیوں کہ اللہ تعالی کے ہر ناپسندیدہ امر کا ناجائز ہونا لازم نہیں۔


سوال سوم؛


ممکن ہے کہ اس بات کا تعلق اس وقت کے مشاورتی معاملہ سے ہو۔دیگر امور سے اس کا تعلق نہ ہو۔وہ اس طرح کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو

اللہ تعالی کی وحی کے ذریعہ معلوم ہو چکا ہو کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اس مشورہ میں صحیح ہیں۔

اسی لئے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو غیر صحیح(خاطی)قرار دینا رب تعالی کو پسند نہیں۔


سوال چہارم؛


 حدیث مذکور میں خطا سے کون سا معنی مراد ہے؟

 عربی زبان میں بھی لفظ خطا مشترک ہے۔

مشترک کے تمام معانی ایک ساتھ مراد نہیں ہوتے۔


اگر مذکورہ مشاورتی امر کو ملحوظ رکھا جائے تو یہاں خطا سے بھول چوک،سہو و نسیان مراد ہو گا۔یہاں نہ اجتہاد تھا،نہ خطائے اجتہادی مراد ہو گی۔


سوال پنجم؛ 


اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف خطا کی نسبت کسی بھی امر میں کی جائے تو یہ رب تعالی کو ناپسند ہے تو یہ

 امر دیگر اہل فضل کے لئے ثابت ہو گا یا نہیں؟ 


یا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے مخصوص فضائل میں شمار ہو گا؟


مثلا رب تعالی فرما دے کہ میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک نیکی پر ایک ہزار ثواب دوں گا تو اس سے یہ کیسے ثابت ہو گا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی ایک نیکی پر ایک ہزار یا پانچ سو ثواب ملے گا؟


سوال ششم؛


کیا عربی زبان اور اردو زبان میں لفظ خطا کے معانی یکساں ہیں؟


کیا حکم شرعی میں اردو زبان اور اہل اردو کے عرف کا لحاظ نہیں ہو گا؟

 

سوال ہفتم؛


حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کسی نے خطا کی نسبت کی تو یہ بے ادبی ہو گی،یا کذب بیانی؟ یا دونوں ہے؟


جب اللہ تعالی نے ان کی طرف خطا کی نسبت کو ناپسند فرمایا تو اس کا ایک مفہوم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نےاپ کو خطا سے محفوظ فرما دیا ہے تو جو حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب خطا کی نسبت کرے،وہ کذب بیانی کر رہا ہے،اور خلاف واقع وخلاف حقیقت بات بول رہا ہے۔یہی کذب ہے۔


جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے تین بیٹے ہوں اور کسی کو صحیح سے معلوم ہو کہ اپ کے تین بیٹے ہیں،لیکن وہ کہتا ہے کہ دو ہی بیٹے تھے تو یہ کذب بیانی ہے۔یہاں بے ادبی کا مفہوم ظاہر نہیں ہوتا۔


سوال ہشتم؛


اگر مذکورہ روایت کے سبب دیگر اہل فضل کے لئے بھی لفظ خطا کو ممنوع تسلیم کرلیا جائے تو اہل فضل کی طرف لفظ خطا کی نسبت مکروہ تحریمی ہو گی یا مکروہ تنزیہی؟

یا اسائت یا خلاف اولی؟ 

یا مباح و ناپسندیدہ؟


ہر ناپسندیدہ امر غیر مباح و ناجائز نہیں ہوتا۔


طلاق کو ابغض المباحات کہا گیا ہے۔طلاق کے بارے میں حدیث شریف میں وارد ہے۔ 

ان من ابغض الحلال الی اللہ الطلاق۔


علامہ علی قاری حنفی علیہ الرحمہ نے رقم فرمایا۔ان ابغض المباحات الی اللہ عند اللہ الطلاق۔فنص علی اباحتہ و کونہ مبغوضا۔وہو لا یستلزم ترتب لازم المکروہ الشرعی۔الا لو کان مکروہا بالمعنی الاصطلاحی۔(مرقات المفاتیح جلد دہم ص 216-مکتبہ شاملہ)


اس مقام پر علامہ علی قاری نے متعدد ایسے امور کو بیان فرمایا ہے جو رب تعالی کے یہاں مبغوض اور ناپسندیدہ ہیں،لیکن شریعت خداوندی میں جائز ہیں۔


جب کوئی امر جائز ہے تو اس کا مرتکب گنہ گار بھی نہیں ہو گا۔گمراہ یا کافر ہونا بہت دور کی بات ہے۔


سوال یہ ہے کہ جو امر اللہ تعالی کو ناپسند ہو،لیکن جائز ہو تو اس کا مرتکب گنہ گار نہیں


 تو پھر جو امر بندوں کو ناپسندہو،لیکن شریعت میں جائز ہو تو اس کا مرتکب گنہ گار کیسے ہو گا؟


اولیائے کرام کا وہ طبقہ جو فرقہ ملامتیہ میں شمار ہوتا ہے۔حضرت داتا گنج بخش قدس سرہ العزیز نے کشف المحجوب میں اس طبقے کا ذکر فرمایا ہے۔اس طبقے کے اولیائے کرام کسی مقصد کی خاطر ایسے اعمال انجام دیتے ہیں جو شریعت میں جائز ہیں،لیکن عام مومنین کو پسند نہیں۔


ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ حج کے بعد رمضان کے مہینے میں واپس ا رہے تھے۔کسی شہر کے حاکم کو حضرت کی امد کی اطلاع ہوئی تو اپنے اعوان و انصار،لشکر و افواج اور اہل شہر کے ساتھ حضرت کے استقبال کے لئے شہر کے باہر کھڑے تھے۔

اللہ کے ولی نے سوچا کہ جب لوگ اس طرح میرا شاہانہ استقبال کریں گے تو نفس خوش ہو جائے گا اور مجھے غلط راہ پر ڈال سکتا ہے۔

وہ جب استقبال کرنے والے مجمع کے قریب ائے تو اپنی جھولی سے روٹی کے ٹکڑے نکالے اور کھانے لگے۔یہ دیکھ کر عقیدت مندوں کا ہجوم غائب ہونے لگا۔


چوں کہ وہ مسافر تھے تو ان کے لئے حالت سفر میں رخصت کا حکم تھا اور یہاں نفس کشی کی ضرورت تھی،کیوں کہ نفس کشی اولیائے کرام کا بہت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔

یہاں گرچہ رمضان میں روٹی کھانا ان ولی کے جائز تھا،لیکن عقیدت مندوں کو پسند نہ ایا اور یکے بعد دیگرے لوگ غائب ہوتے گئے۔

اس بزرگ کو بھی نفس کشی کی ضرورت تھی۔شرعی طور پر نہ عقیدت مندوں پر کوئی الزام ہے،نہ اس ولی اللہ پر کوئی الزام۔واللہ تعالی اعلم


اگر لفظ خطا کے استعمال سے متعلق کوئی فقہی جزئیہ مل جائے تو سب سے بہتر ہے۔


غیر منصوص مسائل میں فقہائے کرام کو تحقیق کا حق حاصل ہے،لیکن اس تحقیق پر جو سوالات وارد ہوں گے،ان کے جواب بھی دینے ہوں گے۔


ان شاء اللہ تعالی مزید سوالات مرقوم ہوں گے۔جو اصل موضوع سے ہی متعلق ہوں گے۔


طارق انور مصباحی


جاری کردہ؛

18:اگست2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے