اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے؟(قسط چہارم) ‏ ‏از ‏قلم ‏طارق انور ‏مصباحی

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

اختلاف وانتشار کا سبب کیا ہے؟

(قسط چہارم) 

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:((اذا صح الحدیث فہومذہبی))

یعنی جب میرے اجتہادی مسئلہ کے بالمقابل صحیح حدیث مل جائے تووہی میرا مذہب ہے۔اس قول کی تشریح میں بتایاگیا کہ وہ حدیث امام کونہ ملی ہو، اور اس وجہ سے آپ نے اجتہاد کیا،پھر جب حدیث مل جائے تو حدیث پر عمل کا حکم فرمایا۔ اس کی مکمل تشریح اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے ”الفضل الموہبی“میں رقم فرمادی ہے۔اسی طرح کا قول دیگر ائمہ مجتہدین سے بھی منقول ہے۔

اگر حدیث کا مفہوم اورامام مجتہدکا اجتہادی مسئلہ ایک ہی ہے تو یہاں مفہوم حدیث اور قول امام میں کوئی تعارض وتخالف نہیں۔دونوں کا ایک ہی مفاد ہے۔اگر دونوں کے مفہوم میں تخالف وتضاد ہے تو یہ بات معلوم ہے کہ دومعارض ومتضادامور میں سے ایک ہی امرنفس الامر کے اعتبار سے حق ہوگا۔

 اب یہاں دوامر ہیں:مفہوم حدیث اور قول امام۔حضرت امام اعظم قدس سرہ القوی نے حدیث پر عمل کا حکم دے کر واضح فرمادیا کہ مفہوم حدیث حق ہوگا۔اب قول امام نفس الامر کے اعتبارسے حق سے متخلف ہوگا،گر چہ اصول اجتہاداورقواعد استنباط کے اعتبارسے حق ہو۔

یہاں اس حدیث سے متعلق بحث ہے جو امام کومعلوم نہ ہوسکی۔اس سے واضح ہوگیا کہ کوئی حدیث مجتہد کو معلوم نہ تھی،اور اس نے اجتہاد کرلیا،پھر حدیث اس اجتہادکے برخلاف ہوئی تو حدیث کی معرفت نہ ہونے کے باوجود مجتہدکے اجتہادی مسئلہ کو خطائے اجتہادی کے زمرہ میں رکھا جائے گا۔اس اجتہادی مسئلہ کے ترک اور حدیث پر عمل کا حکم دینا اس بات کو متعین کررہا ہے کہ اجتہاد وہاں حق سے متخلف ہوگیا اور اصابت حق کی منزل کو نہ پاسکا۔اس اجتہادی مسئلہ کے برخلاف صحیح حدیث کا وجوداس مسئلہ میں اجتہادی خطا کا تعین کرے گا۔

 حدیث پر عمل کا حکم دینے کا یہی مطلب ہے کہ امام مجتہد ایسی صورت میں اپنے اجتہادی مسئلہ سے رجوع فرمارہے ہیں،اورحق سے رجوع نہیں کیا جاتا،بلکہ خلاف حق سے رجوع کیا جاتاہے۔اس سے معلوم ہواکہ مسئلہ متعلقہ کے بارے میں وارد شدہ حدیث کا علم نہ ہونے کے باوجود خطائے اجتہادی کا ثبوت ہوجاتا ہے۔

دراصل خطائے اجتہادی کے مفہوم کونہ سمجھنے کے سبب یہ نظریہ پیدا ہوگیا کہ حدیث کی معرفت ہی نہیں تو خطا کیسے؟ درحقیقت عدم اصابت حق کا نام اجتہادی خطا ہے۔ خواہ عدم اصابت حق حدیث کی عدم معرفت کے سبب ہو، یا حدیث کی ایسی تاویل کے سبب ہوجو مرضی الٰہی کے موافق نہ ہو تووہا ں بھی عدم اصابت حق ثابت ہے، گر چہ دنیا والوں کو مرضی الٰہی کا علم نہ ہو۔حدیث نبوی جس میں خطائے اجتہادی کا ذکر آیا،اس میں عدم اصابت حق یعنی حق نہ پانے کو اجتہادی خطا کہا گیا ہے۔

(عَن عَبدِ اللّٰہِ بنِ عَمرٍو وَاَبِی ہُرَیرَۃَ قَالَا:قَالَ رَسُول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجتَہَدَ وَاَصَابَ فَلَہٗ اَجرَانِ-وَاِذَا حَکَمَ فَا جتَہَدَ وَاَخطَأَ فَلَہٗ اَجرٌ وَاحِدٌ) (مشکوٰۃ المصابیح ص 324-صحیح البخاری ج2ص 1092-صحیح مسلم ج 2ص76)

 ترجمہ:جب حاکم فیصلہ کرے اور وہ(حکم شرع کے بارے میں)اجتہاد کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دواجر ہے،اور جب فیصلہ کرے اور اجتہاد کرے،پس خطا کرجائے تو اس کے لے ایک اجرہے۔

ابتدائی طور پر یعنی اصول اجتہاد کی رعایت کے اعتبارسے ہرمجتہدمصیب ہوتے ہیں،اور انجام ونتیجے کے اعتبار سے بعض حق کوپاتے ہیں اوربعض حق کونہیں پاتے۔متضادومتخالف اقوال میں سے ہرایک عند اللہ حق نہیں۔ 

ہاں،یہ ضرور صحیح ہے کہ ہر مجتہد کو ظہورخطا سے قبل اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا حکم ہے اوراسی طرح ہرمقلد کو اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کرنا ہے۔اصول اجتہاد کی رعایت کے اعتبارسے مذاہب اربعہ حق ہیں اورمتضاد اقوال میں اصابت حق کسی ایک کو حاصل ہے،جس کا علم بندوں کونہیں۔

ملااحمد جیون جون پوری نے رقم فرمایا:((ان المجتہد یخطئ ویصیب،والحق فی موضع الخلاف واحد)ولکن لا یعلم ذلک الواحد بالیقین-فلہذا قلنا بحقیۃ المذاہب الاربعۃ) 

(نورالانوار جلد دوم ص301-دار الکتب العلمیہ بیروت)

اجتہادی خطا عیب نہیں ہے، بلکہ بشری تقاضوں میں سے ہے۔ خوردونوش،نیند،اونگھ، صحت ومرض،بول وبراز،بالغ انسان کو جنس مخالف کی اشتہا،خوشی وغم وغیرہ امور بشری تقاضوں اور انسانی فطر ت میں شامل ہے۔ 

جب ایک امر حق ہوگا تو اس کے برخلاف امر حق سے خارج ہوگا۔باب اجتہادمیں اسی کو خطائے اجتہادی کہا جاتا ہے۔ مخلوق معصوم یعنی حضرات انبیائے کرام وملائکہ عظام علیہم السلام سے بھی یہ ثابت ہے۔

 مخلوق کو خالق کا رتبہ نہ دیا جائے۔مذہب اہل سنت وجماعت افراط وتفریط سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرقسم کی خطا،بھول چوک، سہو ونسیان وغیرہ سے پاک ہے۔فضل خداوندی کے سبب کسی بندے کا ہرقسم کی خطا،سہوونسیان،بھول چوک وغیرہ سے پاک ہوناعقلی طورپر ممکن ہے،لیکن اس کا شرعی ثبوت موجود نہیں۔

امام نسفی نے رقم فرمایا:(ولنا قولہ تعالٰی:((ففہمناہا سلیمان)ای الحکومۃ والفتوی-او القضیۃ-واذا اختص سلیمان بالفہم وہو اصابۃ الحق بالنظر فی الحق کان الاٰخر خطأ- وما قضی داؤد کان رأیا-اذ لوکان وحیا لما حل لسلیمان مخالفتہ-ثم تخصیص سلیمان بفہم القضیۃ یقتضی ان یکون الاٰخرخطأ)(کشف الاسرار شرح المنار جلد دوم ص 304-دارالکتب العلمیہ بیروت)

باغ فدک کے امر میں حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہادونوں کو حق پر کہا جاتا ہے،اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصول وقانون کے اعتبارسے دونوں حق پر ہیں۔ 

متضاد اقوال میں انجام اور نتیجہ کے اعتبارسے عنداللہ دونوں متضاد قول حق نہیں ہوتے ہیں۔اب عند اللہ کون ساقول حق ہے۔اس کا علم بندوں کو نہیں ہوتا۔

طلب میراث کا مفہوم یہ ہواکہ باغ فدک میں وراثت جاری ہوگی،اور عدم عطائے میراث کا مفہوم یہ ہوگا کہ میراث جاری نہیں ہوگی۔ عند اللہ دونوں نظریہ اصابت حق سے متصف نہیں ہوسکتا۔ 

جب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وجملہ صحابہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع عدم تقسیم میراث پر ہوگیا اور امت مسلمہ اپنے اجماع میں خطا سے محفوظ ہے تو اس سے یہی ظاہر ہوا کہ میراث نبوی کی عدم تقسیم کا نظریہ ہی عند اللہ حق ہے۔

ملااحمد جیون جون پوری نے رقم فرمایا:((والمختار انہ مصیب ابتداءً مخطئی انتہاءً)لانہ اتٰی بما کلف بہ فی ترتیب المقدمات وبذل جہدہ فیہا-فکان مصیبا فیہ،وان اخطأ فی آخر الامر وعاقبۃ الحال-فکان معذورًا،بل ماجورًا لان المخطئ لہ اجر-والمصیب لہ اجران)

(نورالانوار جلد دوم ص304-دارالکتب العلمیہ بیروت)

 جب اجتہاد میں وقوع خطا یعنی عدم اصابت حق کے باوجود اجر دیا جارہے تو یہ مجتہدکے حق میں کوئی عیب نہیں۔کیا غلط کام پر اجر دیا جاتا ہے۔ جس پر اجر دیا جارہا ہے،وہ یقینا فعل حسن ہے،فعل قبیح نہیں،گرچہ اس کا ذکرکسی موقع پر کسی سبب سے ممنوع ہوجائے۔اسی طرح مجتہد کو عدم ظہور خطا کی صورت میں اپنے اجتہاد پر عمل کا حکم ہے تو کیا شریعت نے کسی غلط صورت پر عمل کا حکم دیا،ہرگز نہیں۔ظنی امور میں مجتہد کو اصول وضوابط کی روشنی میں جس کا ظن غالب ہو، اسی پر اسے عمل کا حکم ہے،گرچہ وہ اجتہاد اصابت حق کی منزل سے متخلف ہو۔

جب کسی اجتہادی مسئلہ میں عدم اصابت حق یعنی خطا کے باوجوداس پر اجر اور عمل کا حکم ہے تو خطائے اجتہادی مجتہد کے حق میں عیب نہیں،پھر اس کا ذکر بے ادبی نہیں ہوگا۔ہاں، اس کو بصورت عیب پیش کیا جائے، تب بے ادبی ہوگی۔

حدیث نبوی میں مطلق عدم اصابت حق کو اجتہادی خطا بتایا گیا ہے۔خواہ بندہ کو اس کے برخلاف منصوص حکم شرعی کا علم ہو،یا علم نہ ہو۔ ایسا نہیں کہ منصوص حکم شرعی کی عدم معرفت کی صورت میں عدم اصابت حق ہوتووہ خطا ئے اجتہادی کے دائرہ سے باہر ہے۔جب منصوص حکم شرعی کا علم ہوگا تووہاں اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ہاں، اگروہ نص غیر مفسر ہے تو وہاں نص میں تاویل ہوسکتی ہے،اوراس تاویل میں صحت وخطا دونوں کا احتمال ہے۔

ہراجتہاد خطا کا احتمال ر رکھتا ہے۔ایسی صورت میں یہ دعویٰ کہ مسئلہ طلب فدک میں حضرت سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جانب سے اجتہادبھی ہوتو بھی خطا کا احتمال نہیں،بالکل غلط دعویٰ ہے۔بعض لوگ شیرخدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا مانتے تھے۔آپ ان مرتدین کو آگ میں جلا دیا تھا۔یہ سب غلوکی شکلیں ہیں۔ 

اجتہاد میں اصابت حق کا ظن غالب ہوتا ہے اور خطا کا احتمال ہوتا ہے۔ اصابت حق کے ظن غالب کے اعتبار سے عمل کی اجازت ہے،گر چہ وہاں خطا کا احتمال بھی ہو۔نفس الامری حقیقت کے ظہور سے قبل خطا کا احتمال مرجوح ہوگا اور اصابت حق کی جہت راجح ہوگی،اور ظنی واجتہادی امور میں ظن غالب پر عمل کا حکم ہے۔

ملا احمد جیون جون پوری نے تحریر فرمایا:((وحکمہ الاصابۃ بغالب الرأی)ای حکم الاجتہاد لذکرہ قریبًا،اوحکم القیاس لذکرہ فی الاجمال-اصابۃ الحق بغالب الرأی دون الیقین)

(نورالانوار جلددوم ص301 -دارالکتب العلمیہ بیروت)

مذبذبین کا قافلہ میدان میں 

جو لوگ متکلم کے خلاف میدان میں بر اجمان ہیں۔ ان میں بہت سے اہل باطل یعنی مذبذبین بھی ہیں۔ مخالفین میں سے بعض لوگ مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی تکفیر کے منکر ہیں۔ کافر کلامی کے کفر کا منکر یا تو کافر کلامی ہوگا،یا کافرفقہی۔جو لوگ اشخاص اربعہ کے کفر کا مطلق انکار کرتے ہیں،وہ کافر کلامی ہیں اور جو لوگ اشخاص اربعہ کو گمراہ اور غیر کافر کلامی کہتے ہیں،وہ متکلمین کے یہاں گمراہ اورفقہا کے یہاں کافر ہیں۔اس کی تفصیل ”البرکات النبویہ“رسالہ دوازدہم:باب چہاردہم وپانزدہم،اور رسالہ یازدہم:باب چہارم میں ہے۔

اشخاص اربعہ کی تکفیرکے منکرین اسلامی اصول وقوانین کے بالمقابل خود سے قوانین وضع کرتے ہیں،پھر ان خودساختہ اصول کی روشنی میں تکفیر کا انکار کرتے ہیں۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صریح ومتعین بے ادبی کرنے والوں کے حق میں یہ لوگ نرمی دکھاتے ہیں اور کسی غیر معصوم معظم دینی کے لیے لفظ خطا کامطلق استعمال یا خطائے اجتہادی کا استعمال ہر گز صریح اور متعین بے ادبی نہیں،لیکن یہاں سختی دکھا رہے ہیں،تاکہ اہل حق کویہ مذبذبین مورد الزام ٹھہرا سکیں،اور اپنے کفر وگمرہی پر حجاب ڈال سکیں۔

واضح رہے کہ مذبذبین کے مذکورہ دونوں طبقے یقینا اہل سنت وجماعت سے خارج ہیں۔فاتحہ ونیاز اور عرس وچادر پوشی کا نام سنیت نہیں،بلکہ ضروریات اہل سنت کوماننا سنی ہونے کی دلیل ہے او ر ضروریات دین کو ماننا مومن ہونے کی دلیل ہے۔ فاتحہ ونیاز اور عرس وچادرپوشی مستحبات میں سے ہیں،نہ کہ ضروریات دین یا ضروریات اہل سنت میں سے۔

یہ مذبذبین بدترین قسم کے گمراہ ہیں۔اگر ان کی بداعتقادی کواجاگر نہ کیا جائے تویہ ہندوپاک میں مذہب اہل سنت وجماعت کوتباہ وبرباد کردیں گے۔ان مذبذبین سے دور بھاگیں:ایاکم وایاہم لایضلونکم ولا یفتنونکم۔بدعقیدوں کے خروج کے بعد بھی مذہب اہل سنت وجماعت سواداعظم اورتمام بدمذہب فرقوں سے کثیرالافراد رہے گا۔ہماری کتاب ”السواد الاعظم من عہد الرسالۃ الیٰ قرب القیامہ“میں تفصیل مرقوم ہے۔  

طارق انور مصباحی

جاری کردہ:09:ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے