اجتہاد فاطمی؛ اعتقادیات میں سے ہے یا فقہیات میں سے؟

مبسملا و حامدا::مصلیا و مسلما


اجتہاد فاطمی؛

 اعتقادیات میں سے ہے یا فقہیات میں سے؟


سوال1:باغ فدک کا مطالبہ اجتہاد کے سبب تھا یا نص قرانی کے پیش نظر؟

اس بارے میں مذہب اہل سنت و جماعت کا مسلک مختار کیا ہے؟


جواب؛

زید کا ایمان لانا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا،حج کرنا،تحقیق کرنا،اجتہاد کرنا وغیرہ اعمال اس کے شخصی اور ذاتی اعمال ہیں۔

زید کے اعمال افعال علم فقہ یا علم عقائد کے مسائل نہیں۔

علم فقہ،فقہی مسائل کا مجموعہ ہے اور علم عقائد اعتقادی مسائل کا مجموعہ ہے۔

اسی طرح حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اجتہاد یا عمل بالقران ان کے شخصی اعمال وذاتی افعال ہیں اور علم فقہ و علم عقائد سے خارج ہیں۔

فقہی مسائل و معلومات علم فقہ کے اجزا اور حصے ہیں اور اعتقادی مسائل و معلومات علم عقائد کے اجزا ہیں۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اعمال وافعال کا تذکرہ ان کی سیرت و سوانح کا حصہ ہو گا۔

اہل سنت کا کوئی مختار مذہب کسی مختلف فیہ اعتقادی مسئلہ میں ہوتا ہے۔

ان مذاہب میں جو راجح مذہب ہو،وہ مذہب مختار ہے،اور جو مرجوح مذہب ہو،وہ مذہب غیر مختار ہے ۔

ضروریات دین یا ضروریات اہل سنت میں اہل سنت و جماعت کے درمیان اختلاف نہیں ہوتا۔


غیر اجماعی، فروعی وظنی اعتقادیات میں اختلاف ہوتا ہے،جیسے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو علوم خمسہ حاصل ہیں یا نہیں؟ 

اس بارے میں اعلی حضرت قدس سرہ اور علامہ سید احمد برزنجی شافعی مدنی علیہ الرحمہ کا اختلاف ہے۔


حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باغ فدک کا مطالبہ اجتہاد کے سبب تھا یا نص قرانی کے پیش نظر؟

یہاں چھ امر ہیں۔

۱٬۲_اجتہاد کرنا یا نص قرانی پر عمل کرنا

۳٬۴_اجتہاد یا نص قرانی پر عمل کا جائز ہونا

۵_باغ فدک کا مطالبہ کرنا

۶_باغ فدک کے مطالبہ کا جائز یا ناجائز ہونا

ان چھ امور میں سے تین امر حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کا شخصی فعل اور ذاتی عمل ہے،اور وہ تینوں امور باب فقہیات سے خارج ہیں۔

وہ تین امر اجتہاد کرنا،نص قرانی پر عمل کرنا اور باغ فدک کا مطالبہ کرنا ہے۔

باقی ماندہ تین امور باب فقہیات سے ہیں۔وہ تین امور یہ ہیں۔

الف۔ اجتہاد کا جائز ہونا۔مجتہد کے لئے اجتہاد جائز ہے۔غیر مجتہد کے لئے ناجائز۔

ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو مجتہد تسلیم کیا گیا ہے۔حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مجتہد ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔


ب۔نص قرانی پر عمل کا جائز ہونا۔مومن کو قران و حدیث پر ہی عمل کا حکم ہے۔دیگر مذاہب کے احکام و قوانین پر عمل کی اجازت نہیں۔

ج۔باغ فدک کے مطالبہ کا جائز یا ناجائز ہونا۔

نبی کی میراث تقسیم نہیں ہوتی،لیکن حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس بارے میں حدیث نبوی کی عدم اطلاع و عدم معرفت کے وقت مطالبہ کیا تھا تو عدم اطلاع کی حالت میں اس مطالبہ کو ان کے حق میں غیر مباح نہیں کہا سکتا۔

حدیث پر اطلاع پا کر ترک مطالبہ حکم شرعی کے موافق ہوا تو نہ مطالبہ غیر مباح ہوا،اور نہ ہی ترک مطالبہ خلاف شرع ہوا۔

نیز حکم شرعی سن کر مال و دولت سے دست برداری نے حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کے متعدد اوصاف حسنہ اور ان کے حسن باطن کو اجاگر اور روشن کر دیا۔ 


الحاصل حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اجتہاد یا نص قرانی پر ان کا عمل ان کی سیرت و سوانح کا ایک حصہ اور ان کا ذاتی عمل اور شخصی وصف ہے۔اس کا تعلق باب اعتقادیات اور باب فقہیات سے نہیں۔اس بارے میں مذہب اہل سنت کا کوئی مختار قول نہیں ہو گا۔


ہاں،علمائے اہل سنت کا مختار قول ممکن ہے،لیکن اس قول مختار کی مخالفت کا وہ حکم نہیں ہو گا جو باب اعتقادیات اور باب فقہیات کے قول مختار کی مخالفت کا حکم ہے۔

دوسری بات یہ بھی مد نظر رکھیں کہ ہر اختلافی مسئلہ میں کوئی مختار اور راجح قول ہونا ضروری نہیں۔

اشعریہ اور ماتریدیہ کے یہاں بعض ظنی،فروعی و غیر اجماعی عقائد میں اختلاف ہے۔ہر ایک طبقہ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہے۔

ان فروعی اعتقادی مسائل میں ہر ایک کو اپنی تحقیق کے مطابق حق اور صحیح اعتقاد کیا جاتا ہے۔

یہی حال فقہی مسالک اربعہ کا ہے کہ ہر ایک کو اپنے اجتہاد کے مطابق اہل حق شمار کیا جاتا ہے۔


سوال2:مذہب مختار اور قول غیر مختار میں فرق کیا ہے؟


جواب؛

 مذہب مختار اور قول غیر مختار میں فرق یہ ہے کہ مذہب مختار راجح ہو گا اور قول غیر مختار مرجوح ہو گا۔


باب فقہیات میں مرجوح قول پر فتوی یا عمل کی اجازت نہیں۔


تاریخ اور سیرت و سوانح کے مشمولات و مندرجات کا یہ حکم نہیں۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مطالبہ اجتہاد کے سبب ہو تو ان کا اجتہاد اور ان کا مطالبہ،یہ دونوں امر ان کے ذاتی وشخصی اعمال وافعال میں سے ہیں۔

اگر نص قرانی پر عمل کے سبب مطالبہ تھا تو نص قرانی پر عمل اور مطالبہ دونوں ان کے شخصی اعمال وذاتی افعال ہیں۔

یہ تمام ذاتی اعمال وافعال علم فقہ یا علم عقائد  کے مسائل نہیں ہیں۔

اگر کسی کو شک گزرے تو حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی  عنہا کے شخصی اعمال وذاتی افعال پر علم فقہ و علم عقائد کی تعریف کو منطبق کر کے دیکھے۔ان شاء اللہ تعالی حقیقت حال ظاہر ہو جائے گی۔


الحاصل اگر یہ بات علمائے اہل سنت و جماعت کے یہاں راجح ہے کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مطالبہ عمل بالقران کے سبب تھا،اجتہاد کے سبب نہیں تھا، اور اجتہاد کے سبب مطالبہ کا قول مرجوح ہو۔


اب کوئی اسی مرجوح قول کو اختیار کر لے تو اس پر وہ حکم وارد نہیں ہو گا جو حکم باب فقہ اور باب عقائد کے مرجوح قول کو اختیار کرنے پر وارد ہوتا ہے۔

علم فقہ و عقائد کے احکام الگ ہیں اور علم تاریخ و فن سیرت و سوانح کے احکام الگ ہیں۔ 


امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے استخراج کردہ فقہی مسائل باب فقہیات میں سے ہیں،لیکن ان کا اجتہاد ان کا ایک شخصی وصف اور ذاتی عمل ہے۔

کسی مومن کا ذاتی عمل اور اس کا شخصی وصف فقہ سے خارج ہو گا اور وہ ذاتی عمل فقہی احکام کا محل ورود ہو گا کہ فلاں شخص کا ذاتی عمل جائز ہے یا ناجائز؟مستحب ہے یا مکروہ؟


امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا اجتہاد جائز ہے اور میرا اجتہاد ناجائز،کیوں کہ شرائط اجتہاد مجھے میسر و حاصل نہیں تو جو وصف یا عمل فقہ شرعی کا محل ورود ہے،یعنی جس پر فقہی احکام وارد ہوتے ہیں،اگر وہ فقہ بن جائے  تو وارد و محل ورود کا ایک ہونا لازم ائے گا۔ظرف و مظروف کا متحد بالذات اور ایک ہونا محال ہے۔


اگر کہا جائے کہ علم فقہ حاصل کرنا فرض ہے تو یہاں حکم فقہی بعینہ فقہ پر وارد ہو گیا تو وارد و محل ورود ایک ہو گئے۔

جواب یہ ہے کہ حکم فقہی یعنی تحصیل علم فقہ کا فرض ہونا یہ  حکم تحصیل علم فقہ پر وارد ہو گا،نہ کہ علم فقہ پر۔

 تحصیل علم فقہ یہ مومن کا وصف ہے اور علم فقہ، فقہی احکام کا مجموعہ ہے۔


سوال 3؛

کیا میراث نبوی کی عدم تقسیم کا مسئلہ باب فقہیات سے ہے؟ 


جواب؛

ہاں،میراث نبوی کی عدم تقسیم کا مسئلہ باب فقہیات میں سے ہے۔جس طرح وراثت کے دیگر مسائل باب فقہیات سے ہیں۔


جب تمام صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ میراث نبوی کی تقسیم نہیں ہو گی۔خود حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی حدیث نبوی سن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کردہ حکم پر متفق ہو گئیں اور کسی صحابی کا اس میں اختلاف نہ رہا تو یہ مسئلہ ضروریات اہل سنت میں سے ہو گیا۔اس کے بالمقابل اہل سنت کا کوئی دوسرا قول نہیں ہو سکتا۔


حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سب اس مسئلہ پر متفق ہیں.


سوال4 : 

کیا اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے کہیں حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کا ذکر فرمایا ہے؟


جواب؛

 ممکن ہے کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز سے اس بارے میں سوال نہ ہوا ہو تو اپ نے کچھ نہیں لکھا۔اگر وہ کچھ تحریر فرما جاتے تو یقینا ہمارے لئے قول فیصل ہو جاتا۔


اب ما و شما کو یہ مسئلہ حل کرنا ہے کہ اگر غیر معصوم اہل فضل و کمال کے لئے لفظ خطا کا استعمال ہو تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ 

ہمارے چار مضامین اس تعلق سے اپ لوڈ ہو چکے ہیں۔ان کو دیکھ لیں۔


سوال5: 

کیا کسی صحابی نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا باغ فدک کے مطالبہ میں خطا پر تھیں؟


جواب:

 سوال میں خطا سے اگر خطائے اجتہادی مراد ہے اور بالفرض حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مطالبہ باغ فدک بوجہ اجتہاد تھا تو عدم تقسیم میراث نبوی پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔خود حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی حدیث نبوی سن کر اس مسئلہ پر متفق ہوگئیں تو اجماع صحابہ کرام بشمول حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ ثابت ہو گا کہ بوجہ اجتہاد طلب باغ فدک غیر صواب تھا۔

حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے مسئلہ سے اتفاق بھی خود ظاہر کرے گا کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اجتہاد غیر صواب تھا۔


اگر یہ مطالبہ بوجہ اجتہاد نہ تھا تو نہ یہاں اجتہاد ہو گا نہ خطائے  اجتہادی۔


اس صورت میں علما کو یہ مسئلہ حل کرنا ہو گا کہ کسی کو بعض علما کی تحریر سے یہ معلوم ہوا کہ مطالبہ باغ فدک بوجہ اجتہاد تھا،پھر اس نے دیکھا کہ تمام صحابہ کرام بشمول حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا بعد میں عدم تقسیم میراث نبوی پر متفق ہو گئے اور اس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا کا اجتہاد کے سبب مطالبہ باغ فدک غیر صواب تھا اور اس نے کہا کہ اس مطالبہ میں حضرت سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اجتہادی خطا ہو گئی تو اس کا کیا حکم ہو گا؟


قائل کو یہ علم نہ ہو سکا کہ اس مطالبہ کا بوجہ اجتہاد ہونا علما کے درمیان مختلف فیہ ہے تو شرعی اعتبارسے قائل پر کوئی حکم کیسے عائد ہو سکتا ہے؟


نیز خطائے اجتہادی کی نسبت حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کی جانب بھی ہوئی ہے۔

یہ خطا عیب نہیں ہے،بلکہ اجر و ثواب کا ذریعہ اور فضل و کمال کو ظاہر کرنے والی ہے۔

امت مسلمہ میں اولیائے کرام کی تعداد ہزاروں،بلکہ لاکھوں سے زیادہ ہے،لیکن مجتہدین کی تعداد سو تک،بلکہ پچاس تک بھی پہنچنا مشکل ہے۔ 

حضرات صحابہ کرام میں قریبا بیس مجتہد تسلیم کئے جاتے ہیں۔چند مجتہدین ائمہ اہل بیت میں ہیں۔پھر چار مشہور ائمہ مجتہدین اور مزید چند حضرات مثلا ابن ابی لیلی،امام اوزاعی وغیرہما کو مجتہد تسلیم کیا جاتا ہے۔


سوال6 :اہل فضل و کمال کے لئے مطلق لفظ خطا کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ 


 جواب؛

بہت سے امور میں مومن کا حکم الگ ہوتا ہے اور "مومن بہ"کا حکم الگ ہوتا ہے۔

مومن و مومن بہ کی ضروری وضاحت ڈاکٹر جلالی اور اصحاب جمال و کمال(قسط دوم کے اخیر)میں رقم ہو چکی ہے۔


اللہ تعالی کی ذات و صفات اور 

حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کے لئے ایسا محتمل لفظ استعمال نہیں ہوتا،جس کے بعض معانی اللہ تعالی یا حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام پر منطبق نہ ہوتے ہیں۔

ایسے بعض محتمل و موہم لفظ کا استعمال خلاف اولی اور مکروہ بھی ہے اور بعض کا استعمال حرام بھی ہے۔

لفظ میاں کے متعدد معانی ہیں۔بعض معانی اللہ تعالی پر منطبق  ہوتے اور بعض معانی منطبق نہیں ہوتے ہیں،اس لئے اللہ تعالی کے لئے لفظ میاں کے استعمال سے منع کیا گیا۔

لفظ راعنا کے بعض اچھے معانی تھے اور بعض لوگ غلط معنی مراد لیتے۔اللہ تعالی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے اس لفظ کے استعمال  سے منع فرما دیا۔


عام مومنین کے لئے محتمل و مشترک لفظ کا استعمال ہوتا ہے،جیسے لفظ خواجہ کا اطلاق بہت سے اکابر اولیائے کرام کے لئے ہوتا ہے،حالاں کہ اس کے بعض معانی اولیائے کرام پر منطبق نہیں ہوتے۔

لفظ خواجہ کے متعدد معانی ہیں،مثلا خداوند،اقا،سردار،صاحب،ہیجڑا،مخنث وغیرہ۔


 لفظ خطا بھی محتمل ہے۔یہ کسی معنی میں متعین نہیں،بلکہ متعدد معانی کا احتمال رکھتا ہے۔

خطا کا ایک معنی خطائے اجتہادی ہے۔خطائے اجتہادی کا استعمال  حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کے لئے ہوا ہے۔

خطا کا ایک معنی بھول چوک،سہو و نسیان ہے۔

رب تعالی ان تمام سے پاک و منزہ ہے اور حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام امور تبلیغیہ میں بھول چوک،سہو و نسیان سے معصوم ہیں۔

ان نفوس قدسیہ کے ذاتی اعمال میں سہو و نسیان ہو سکتا ہے۔


سہو کے سبب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے چار رکعت کی نماز دو ہی رکعت ادا فرمائی،پھر اس جانب توجہ دلائی گئی تو اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  نے تکمیل فرمائی۔


سہو و نسیان،بھول چوک کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے لفظ نسیان سے مشتق الفاظ کا استعمال حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے حدیث شریف میں وارد ہے۔


لفظ خطا کا مطلق استعمال حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کے لئے دیکھنے کو نہیں ملا،گرچہ سہو و نسیان اور بھول چوک خطا ہی کی صورتیں اور قسمیں ہیں۔


لفظ خطا متعدد معانی کا محتمل اور مشترک لفظ ہے۔اس کے بعض معانی حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام پر منطبق نہیں ہوتے تو مطلق لفظ خطا کے استعمال کی اجازت نہیں ہو گی۔

یہ ممانعت کس درجے کی ہو گی،خلاف اولی،اسائت،مکروہ تنزیہی،مکروہ تحریمی یا حرام؟ اس کی تحقیق کرنی ہو گی۔


غیر نبی یعنی مومنین کے لئے مطلق لفظ خطا کے استعمال کی ممانعت کی وجہ سمجھ میں نہیں اتی ہے۔

مومنین کے لئے مشترک و محتمل لفظ کا استعمال ہوتا ہے،گرچہ اس کے بعض معانی بعض مومنین پر منطبق نہ ہو سکیں۔


 اردو زبان میں لفظ خطا کے معانی


خطا کا ایک معنی گناہ و معصیت ہے۔اگر کسی عام مسلمان سے بھی گناہ ہو جائے تو بلا ضرورت و حاجت اس کی تشہیر کی اجازت نہیں،ورنہ یہ تشہیر اور واقع شدہ گناہ کی طرف اس مومن کی نسبت بھی غیبت و چغل خوری کے دائرے میں ا جائے گی۔اس کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھ لیں۔


الحاصل بوجہ ضرورت و حاجت کسی مومن کی طرف اس سے صادر شدہ گناہ کی نسبت کرنا صحیح ہے،اور کسی مومن پر گناہ کا جھوٹا الزام لگانا ناجائز ہے۔اسی طرح بلا ضرورت و حاجت کسی مومن کے گناہ کا چرچا کرنا غیبت و چغل خوری میں داخل ہے۔


معصومین سے گناہ کا صدور ہی نہیں ہوتا تو ان کی جانب گناہ کی نسبت ہو نہیں سکتی۔


اگر کسی نے معصومین یعنی حضرات انبیائے کرام و ملائکہ عظام علیہم الصلوہ و السلام کی طرف گناہ کی جھوٹی نسبت کی اور  گناہ کاجھوٹا الزام عائد کیا تو یہ بے ادبی ہے اور "مومن بہ"کی بے ادبی کفر ہے۔

واضح رہے کہ یہ حکم حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کی طرف گناہ کبیرہ کی نسبت کرنے کا ہو گا،کیوں کہ بلا قصد وارادہ گناہ صغیرہ کے صدور سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوہ و السلام کے معصوم ہونے میں اختلاف ہے۔


یہ بھی یاد رکھیں کہ بعض الفاظ لغوی اعتبار سےمشترک و محتمل ہیں،لیکن وہ کسی اصطلاح میں ایک مفہوم کے ساتھ خاص ہو چکے ہیں،جیسے رسول کا معنی قاصد بھی ہے۔اسی طرح پیغمبر کا معنی بھی قاصد ہے،لیکن شرعی اصطلاح میں یہ دونوں لفظ نبی و رسول کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔یہ منقولات شرعیہ میں سے ہیں۔اہل اسلام کا یہاں اب ان دونوں لفظ کا استعمال لغوی معنی میں نہیں ہوتا،بلکہ شرعی اصطلاح کے مطابق ہوتا ہے تو غیر نبی کو رسول یا پیغمبر کہنا کفر ہو گا۔


اس بحث میں مشترک اور محتمل سے وہ لفظ مراد ہے جو اپنی اصلی حالت پر باقی رہے،یعنی اس کا استعمال مشترک و محتمل لفظ کے طور پر مروج ہو۔

لفظ خطا تا دم تحریر اردو زبان میں مشترک و محتمل ہی ہے۔اہل عرب کے یہاں بھی محتمل ہے۔اصطلاح شرع میں بھی محتمل ہی ہے۔کسی خاص مفہوم کے لئے لفظ خطا کا استعمال خاص نہیں:واللہ تعالی اعلم بالصواب


طارق انور مصباحی


08:اگست 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے