رام اور رام مندر

باسمہ تعالی وبحمدہ والصلوات والتسلیمات علی حبیبہ المصطفے والہ

رام اور رام مندر 

بھارت کی ہسٹری میں رام نام کا کوئی راجہ یا راجہ کا پتر نہیں گزرا۔
پشیا متر شنگ ایک برہمن تھا۔یہ موریہ سلطنت کے اخری راجہ برہ درتھ کا سپہ سالار تھا۔اس نے اس راجہ کو 180:قبل مسیح میں قتل کر دیا اور موریہ سلطنت کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے برہمنی حکومت قائم کر لی۔
ساکیت یعنی موجودہ اجودھیا کو اپنا دار السلطنت بنایا۔
موریہ سلطنت بھارت کی مول نواسی قوم کی حکومت تھی۔موریہ سلطنت کے سبب بھارت سے برہمنوں اور اریوں کی حکومت کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔
اسی طرح موریہ سلطنت کے مشہور بادشاہ اشوک سمراٹ کے بودھ دھرم کو قبول کر لینے کے سبب برہمنوں کا بنایا ہوا ویدک دھرم(ہندو دھرم/سناتن دھرم)بھی بہت محدود ہو چکا تھا۔
موریہ سلطنت کا دار السلطنت پاٹلی پتر(پٹنہ:بہار)تھا۔
جب پشیا متر شنگ نے موریہ سلطنت کے اخری راجہ کو قتل کر کے حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے بے شمار بودھوں اور مول نواسی لوگوں کو قتل کیا۔
بودھ دھرم کے مذہبی مقامات کو تہس نہس کیا اور برہمنی حکومت قائم کرلیا۔
اس طرح پشیا متر شنگ برہمنوں کا ہیرو بن گیا۔

متعدد شواہد موجود ہیں کہ برہمن قوم اسی پشیا متر شنگ کو رام کے نام سے یاد کرتی ہے۔

وشنو،شیو اور برہما کو چھوڑ کر
رام کو بھگوان بنا کر پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی مول نواسی اقوام کے اندر محکومیت کا تصور اور برہمنوں کے اندر حاکمیت کا جذبہ بیدار کیا جائے۔
یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بابری مسجد کی جگہ کبھی کوئی مندر نہیں تھا۔
جب 1855 میں مسلمانوں کے درمیان یہ بات پھیلی کہ بابری مسجد سے ایک کیلو میٹر دور ہنومان گڑھی مندر کسی مسجد کو توڑ کر بنایا گیا تو مولوی غلام حسین کے کہنے پر جولائی 1855میں
 پانچ سو مسلمان جمع ہوئے اور ہنومان گڑھی مندر گئے۔
وہاں اٹھ ہزار بیراگی موجود تھے۔ان بیراگیوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور بہت سے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔کچھ مسلمان جان بچا کر بھاگ نکلے اور بابری مسجد میں پناہ لئے۔بیراگیوں کا ہجوم بھی ان کے تعاقب میں تھا۔وہ لوگ بابری مسجد پہنچ کر پناہ گزیں مسلمانوں کو ہلاک کر ڈالے،پھر واپس چلے گئے۔

اخر کار یہ معاملہ لکھنو کے شیعہ نواب کے پاس پہنچا۔
اس نے تین لوگوں کی ایک ٹیم اس بات کی تحقیق کے لئے مقرر کیا کہ یہاں کبھی مسجد تھی یا نہیں؟ان تین میں ایک مسلم،ایک ہندو اور ایک انگریز تھا۔
اس ٹیم نے بتایا کہ حالیہ پچیس تیس سال کے اندر کسی مسجد کو توڑ کر ہنومان گڑھی مندر بنانے کی خبر نہیں۔شاید اس سے قبل بھی ایسا نہ ہوا ہو۔
اس رپورٹ کے بعد نواب نے فریقین کو مطمئن کرنے کے لئے کہا کہ کسی مندر کو توڑا نہیں جائے گا،بلکہ ہم ہنومان گڑھی مندر کے قریب ایک مسجد بنوا دیتے ہیں۔مسلمان اپنی مسجد میں عبادت کریں اور ہندو اپنے مندر میں۔ 
نواب کے اس فیصلہ کو سن کر ہنومان گڑھی کے بیراگیوں اور پجاریوں نے سوچا کہ یہاں مسجد بن جائے گی تو ہمیشہ جھگڑے کا خطرہ رہے گا۔وہ لوگ نواب کے فیصلے کو بھی روک نہیں سکتے تھے۔اس لئے ان لوگوں نے سوچا کہ مسلمانوں کو کسی ایسے معاملے میں الجھا دو کہ وہ ہنومان گڑھی مندر کو بھول جائیں۔
 
اس لئے ہنومان گڑھی مندر کے مہنت نے 1857میں بابری مسجد کے باہر اسی کے احاطے میں ایک دیڑھ فٹ کا رام چبوترہ بنا دیا اور یہ مشہور کر دیا کہ یہاں رام کا جنم ہوا تھا۔
مسلمانوں کی جانب سے مخالفت ہوئی،پھر بابری مسجد کے خطیب و امام مولوی اصغر علی نے 30:نومبر 1858کو اس کے خلاف مجسٹریٹ کورٹ میں کیس درج کرا دیا،پھر مولوی موصوف نے 1860,1877,1883,1884میں اسی چبوترے کے بارے میں مجسٹریٹ کورٹ میں پیٹیشن دائر کی۔
 نرموہی اکھاڑا کے رگھور داس مہنت نے اسی چبوترہ کی جگہ مندر بنانے کے لئے 15:جنوری 1885کوفیض اباد کورٹ میں پیٹیشن داخل کی۔ چوں کہ وہ جگہ مسجد کے احاطے میں تھی،اس لئے کورٹ نے کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں دی۔کیس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

فیض اباد کورٹ کے سب جج ہری کشن نے رگھور داس کے کیس کو24:دسمبر1885کو ڈسمسڈ کردیا،پھررگھور داس نے ڈسٹرکٹ جج چیمیر کے یہاں پیٹیشن دائر کی،وہاں سے بھی مارچ 1856میں یہ کیس خارج ہو گیا۔
اس کے بعد رگھور داس نے کورٹ اف جوڈیشیل کمشنر میں اپیل دائر کی۔یہ کورٹ اس زمانے میں ہائی کورٹ کے مساوی سمجھا جاتا تھا۔اس کے جج ڈبلیو ینگ نے 01:نومبر1886کو یہ کیس خارج کر دیا اور چبوترہ کے پاس کسی تعمیر کی اجازت نہیں دی۔جوڈیشیل مجسٹریٹ نے پہلے دونوں جج کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اپنے فیصلے میں لکھا کہ رام چبوترہ کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویزی ثبوت ہمارے پاس پیش نہیں کیا گیا۔
انگریزی حکومت نے 1861میں ہی رام چبوترہ اور بابری مسجد کے درمیان ایک دیوار قائم کر دیاتھا،تاکہ دونوں قوموں میں اختلاف نہ ہو۔
اب لوگ بابری مسجد میں الجھ گئے اور ہنومان گڑھی مندر کو بھول چکے تھے۔
اس وقت بھی کسی نے یہ نہیں کہا تھا کہ بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے بالکل بیچ میں رام کا جنم ہوا تھا۔
یہ سازش ازادی ہند کے بعد ہوئی اور 22:دسمبر1949کو مسجد کے اندر مورتی رکھ دی گئی۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلم دانشوروں کی توجہ سیاسی امور سے ہٹا کر مسجد مندر کی طرف پھیر دی جائے اور برہمن قوم بھارت میں اسانی کے ساتھ حکومت کرتی رہے۔
بھارت کی مول نواسی اقوام کو1909میں مارلے منٹو ایکٹ انے کے بعد ہی برہمنوں نے ہندو بنا کر اپنے ساتھ کر لیا تھا۔
 
سب کو یہ معلوم تھا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی، اس کے باوجود مسجد توڑ دی گئی،پھر اج 05:اگست 2020کو اسی جگہ مندر بنانے کے لئے سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔مسجد توڑ کر اسی جگہ مندر بنانے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کی کمزوری اور بے بسی کا احساس دلایا جائے۔
اس طرح کسی قوم کی ہمت توڑ دی جاتی ہے۔جب ہمت ٹوٹ جاتی ہے تو وہ قوم مثل غلام،بلکہ بدتر از غلام ہو جاتی ہے۔کیا اپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کتنے مولوی نما شیاطین ایک بت کدہ کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور مبارک بادیاں بانٹ رہے ہیں۔اپنی مسجد کی تباہی و بربادی کا کچھ افسوس نہیں۔یہ غلامی ہے یا غلامی سے بدتر کوئی کیفیت؟ 

اب برہمنوں کے سامنے نہ مسلمان سر اٹھانے کے لائق رہے،نہ مول نواسی اقوام۔

اب اگر بہوجن سماج(غیر ارین اقوام)سیاسی محاذ پرمتحد نہ ہو،اور ہر قوم اپنا الگ سیاسی باجا بجائے تو معاملہ مزید خطرناک ہوتا جائے گا۔
  
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
05:اگست2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے