مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما
جشن ازادی مبارک ہو
جہاں سب لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہوں تو ہمیں بھی وہاں خوشی کا اظہار کرنا چاہئے،تاکہ خوشی میں اضافہ ہو جائے اور جشن منانے والے جشن سے بھر پور لطف اندوز ہو سکیں۔
15،:اگست 1947کو ہمارا وطن انگریزوں کی غلامی سے ازاد ہوا تھا۔ایک طرف ملک بھر میں جشن کا ماحول تھا تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی اقلیت ملک بھر میں ڈری سہمی نظر ا رہی تھی۔
ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمان ملک چھوڑ کر بھاگے چلے جا رہے تھے۔ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
تحریک ازادی کا ہیرو ملک کی راجدھانی دلی میں نہیں تھا۔نہ ہی وہ جشن ازادی میں شریک تھا۔وہ ملک کے مختلف علاقوں میں بھاگ دوڑ کر فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش میں سرگرداں تھا۔
وہ موہن داس کرم چند گاندھی جسے سار ملک فادر اف نیشن کہتا ہے،وہ نہ حکومت و دولت کا طلب گار تھا۔نہ عیش و عشرت کا دلدادہ اور نہ جاہ و حشمت کا متوالا۔
وہ امن عامہ کے قیام کے لئے تڑپ رہا تھا۔کبھی یہاں جاتا،کبھی وہاں جاتا۔
اس نے اپنے خوابوں میں جس چمن کا تصور کیا تھا،وہ اسے مل چکا تھا،لیکن جا بجا خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔
ملک میں ایک طبقہ تھا جو بھارت کی ازادی کو صرف اپنے لوگوں تک محدود رکھنا چاہتا تھا۔ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہوتے ہی غلط افکار و نظریات کا غلام بن چکا تھا۔فادر اف نیشن بھی جسے کنٹرول کرنے میں ناکام رہا،بلکہ چھ ماہ کے بعد ہی 30:جنوری1948کو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ ہے بھارت کی ازادی کا مختصر سا خاکہ۔
73: سالوں میں اسی خاکہ کی تفصیل ہمیں نظر اتی ہے۔مجھے سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہوئے یا نہیں؟
ہاں،اس ازادی کی خوشی کو ہم بھنگ نہیں کرنا چاہتے۔اپنا درد و کرب گرچہ ہم بیان کر رہے ہیں،لیکن جشن ازادی میں ہم شریک ہیں۔
دس دنوں قبل ہی ہماری مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے،جس کا ہمیں بہت افسوس ہے اور ہم اپنے پروردگار کی رحمتوں کے امید وار ہیں۔
اس ازاد ملک میں اب سی اے اے،این ار سی اور این پی ار کی مصیبتوں سے ہمیں دو چار ہونے کا خدشہ ہے۔ابھی تو کرونا ہے کہ جس نے اہل حکومت کو سب کچھ کرنے سے روک دیا ہے۔
فروری 2020 میں ملک کی راجدھانی دلی میں ہمارا قتل عام ہوا،ہماری جائیدادیں لٹ گئیں اور پھر کورٹ میں مجرم بھی ہم ہی ثابت ہوئے۔جیل بھی ہمیں جانا پڑا۔سمجھ میں نہیں اتا کہ ہم ازاد ہو گئے اور سب کے لئے مساوی حقوق اور یکساں انصاف ہے۔
کل ہمیں یہ بھی دیکھ لینا ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم اپنے خطاب میں کیا کہتا ہے۔کیا ہمارے لئے نیک جذبات کے دو جملے بھی بولتا ہے یا ہمیں بھول جاتا ہے۔
اب اس ملک میں باوقار وجود کے لئے ہمیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔اپنی اجتماعی اور قومی بھلائیوں کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ازادی سے پہلے اور ازادی کے بعد بھی یہاں وہاں ہمیں گاجر مولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے۔ہماری نسلیں تباہ اور ہماری جائیدادیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ہماری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
کہیں سے ہمیں انصاف ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہم ازاد ہو گئے۔شاید ملک انگریزوں کی حکومت سے ازاد ہو گیا اور ہم ازاد نہ ہو سکے۔اب ہمیں ازادی کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔
اگر ہم سوچتے رہ گئے تو عملی اقدام مشکل ہو جائے گا۔ساری دنیا جانتی ہے کہ جمہوری ملک میں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جس کے ہاتھوں میں حکومت و سیاست ہو یا جو حکومت و سیاست میں اپنی مضبوط حصہ داری رکھتی ہو۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ حکومت و سیاست میں مضبوط حصہ داری نہیں کرتے۔اپنے درمیان سیاسی بیداری نہیں لاتے اور امید لگائے رکھتے ہیں کہ شاید فلاں پارٹی جیت جائے تو ہمارے ساتھ کچھ بھلائی کرے۔
ذرا اپ سوچیں کہ ایک اپاہج ہے جو اپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکتا۔اب اپ کی مرضی ہے کہ چاہیں تو اس کے ساتھ انسانیت کے نام پر حسن سلوک کریں یا اپ اس سے منہ پھیر لیں۔وہ اپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
اسی طرح بھارتی مسلمانوں نے سیاسی میدان میں خود کو اپاہج بنا لیا ہے۔کوئی سیاسی پارٹی اپ کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اس کی انسانیت نوازی ہے،ورنہ وہ اپ سے منہ پھیر لے تو بھی اپ اس کا کچھ نقصان نہیں کر سکتے۔
سیاسی پارٹیاں ہم سے بے خوف ہو چکی ہیں۔وہ ہمیں محض ایک بیل کی طرح سمجھتی ہیں کہ جب اسے اپنے قریب کرنا چاہو تو ہاتھ میں کچھ ہرے پتے لے کر چمکارو تو وہ دوڑا چلا اتا ہے۔
مسلمانو! اپنے اندر سیاسی بیداری پیدا کرو۔ہم نہیں رہیں گے۔اپ نہیں رہیں گے،لیکن ہماری اور اپ کی ال و اولاد رہے گی۔تم اپنی انے والی نسل کو کیسا بھارت سپرد کرنا چاہتے ہو؟
کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ائندہ نسلیں بھی اسی طرح ماب لنچنگ اور فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ و برباد ہوتی رہیں۔جس طرح اج ہم مصیبتوں میں مبتلا ہیں۔سوچو اور اگے بڑھو۔
خدا نے اج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال خود ہی اپنی حالت بدلنے کا
پہلی جنگ ازادی:1857 میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس جنگ میں مسلم و ہندو دونوں قومیں شریک تھیں۔جب انگریز جیت گئے تو مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیا،کیوں کہ قوم مسلم اس جنگ میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی۔
اہل ہند کی شکست کے سبب بھارت سے سلطنت مغلیہ کا نام و نشان مٹ گیا۔کئی ہزار علما و مشائخ کو پھانسی کی سزا دی گئی۔مسلمانوں کو تعلیمی و معاشی ہر اعتبار سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔
انگریزوں نے قوم ہنود کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا۔دونوں قوموں کے درمیان عداوت و اختلاف ڈالنے کی مضبوط کوششیں انگریزوں نے کیں۔اسی اختلافی کیفیت اور دلوں میں ڈالی ہوئی عداوت کا نتیجہ تھا کہ ازادی ہند کے وقت کانگریس اور مسلم لیگ میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔
بھارت کا برہمنی تھنک ٹینک جو مسلم دشمنی میں انگریزوں سے بھی اگے بڑھ چکا تھا۔وہ قوم مسلم کو حکومت میں حصہ دینے کے لئے راضی نہ ہو سکا اور ملک تقسیم ہو گیا۔
وہی لوگ جن کی محدود فکر کے سبب ملک کو تقسیم کی اذیت میں مبتلا ہونا پڑا،وہ لوگ انگریزوں کے جانے کے بعد ملک کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے۔
وہ مسلمانوں کو پستی کی طرف بھی لے جاتے اور اپنا عیب چھپانے کے واسطے کچھ مولوی نما چہروں کو بھی اپنا حامی و طرفدار بنا کر رکھتے،تاکہ ان کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ بھی بٹور سکیں۔
در اصل ان مولوی نما چہروں کو دیکھ کر مسلم قوم دھوکہ کھا گئی،اور قوم اس دلدل میں جا پھنسی کہ وہاں سے واپسی بہت اسان نہیں۔
اب بھارت میں سیاسی سطح پر مسلمانوں کے ابھرنے کا راستہ یہی ہے کہ مسلم لیڈران بہوجن سماج کی سیاست کو اپنائیں،جس کی وضاحت میں نے اپنے متعدد حالیہ مضامین میں کر دی ہے۔اگر اپنی سیاست کا دائرہ مسلمانوں تک محدود رکھیں گے تو مسلم قوم کا خاطر خواہ فائدہ مشکل ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ریاست کے ستر فی صد مسلمانوں نے کسی مسلم سیاسی پارٹی کی حمایت کردی تو ہر انتخابی حلقے میں دیگر قومیں بھی ہیں۔وہ کسی اور طرف چلی گئیں تو مسلم پارٹی کے امید واروں کا جیت جانا مشکل ہے۔
اگر چند سیٹوں پر مسلم پارٹی کے امید وار جیت بھی گئے تو چند ممبران اسمبلی کے ذریعہ نہ حکومت سازی کی جا سکتی ہے، نہ ہی قلت تعداد کے سب حکومت میں مضبوط حصہ داری ہو سکتی ہے۔
مجھے مسلم پارٹی پر اعتراض نہیں،بلکہ مسلم سیاست پر اعتراض ہے۔مسلم پارٹی بہوجن سماج(غیر ارین طبقات)کی سیاست کرے تو مستقبل میں حکومت سازی کی امید ہے۔
بہوجن سماج بھارت کی تمام غیر ارین اقوام کو شامل ہے۔جن کی تعداد پچاسی فی صد ہے۔یہ بھارت کی مول نواسی(اصل باشندہ)اقوام ہیں۔مسلم،سکھ،بودھ،جینی،ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی: سب اس میں شریک ہیں۔
اس کے بالمقابل اریہ سماج ہے۔جس میں برہمن،راجپوت اور بنیا شامل ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ؛
14:اگست 2020
0 تبصرے